حکومت اور نجی پاور کمپنیوں کے مابین مفاہمتی یادادشت اگلے مرحلے میں داخل ہو کر باقاعدہ معاہدے تک پہنچ گئی ہے۔گردشی قرضوں میں مسلسل اضافہ ، بجلی مہنگی ہونے اور آئی پی پیز سے قانونی تنازعات جیسے مسائل کی موجودگی میں یہ پیشرفت غیر معمولی اور عوامی سہو لت کا موجب ٹھہرائی جا سکتی ہے۔ اگست 2020 میںحکومت اور آئی پی پیز کے درمیان ایم او یو طے پایا جس کے تحت بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو حکومت ادائیگی ڈالر کی بجائے روپے میں کرے گی۔پاور پلانٹس کے آپریشن اور دیکھ بھال کی مد میں اخراجات کم ہوں گے اور لیٹ سرچارج میں 2.5فیصد کمی لائی جا رہی ہے۔ ابتدائی طور پر 2002 ءکی پالیسی کے تحت لگنے والے پاور یونٹوں کے ساتھ یہ بھی طے پایا ہے کہ روپے میں ادائیگی کی صورت میں ڈالر کی زیادہ سے زیادہ قدر 145روپے ہو گی جس سے مستقبل میں روپے کی قدر میں کمی کے باوجود حکومت پر ادائیگیوں کے بوجھ میں اضافہ نہیں ہو گا۔ نئی شرائط میں اس امر پر اتفاق کیا گیا کہ حکومت پاور پلانٹس کی صلاحیت کی جانچ پڑتال کے لئے ہیٹ ریٹ ٹیسٹ کرے گی جس میں نجی بجلی گھر حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کریں گے۔دونوں طرف سے اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ براہ راست صارفین کو منتقل کیا جائے گا۔کھاتوں کے جائزے کے بعد واجبات کی ادائیگی یا وصولیوں کی صورت میں نیپرا مجاز اتھارٹی ہو گی۔ پاکستان میں معاشی بحران اور اس کے نتیجے میں حکومت اور بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں (آئی پی پیز) کے درمیان قانونی جنگ کی بڑی وجہ آئی پی پیز کو کیپیسٹی چارجز اور تاخیر سے ادائیگیوں کی مد میں واجب الادا رقوم کی عدم ادائیگی ہے۔ جس کے باعث یہ کمپنیاں لندن کی بین الاقوامی مصالحتی عدالت (لندن کورٹ آف انٹرنیشنل آربیٹریشن) کا رخ کرتی ہیں۔ پاکستان میں انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) نے جتنے بھی پاور پلانٹ لگائے وہ 1999 اور 2002 کی پاور پالیسی کے تحت چل رہے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اکثر کمپنیاں مقامی ہیں لیکن یہ ثالثی کے لیے بین الاقوامی فورم کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہیں۔ایک وقت تھا کہ 20 سے زائد کمپنیوں نے بیک وقت لندن کورٹ آف آربیٹریشن سے رجوع کیا۔ ان میں سے صرف تین مقدمات کا فیصلہ تکنیکی بنیادوں پر پاکستان کے حق میں آیا ہے، جبکہ باقی تمام مقدمات میں پاکستان کو نہ صرف بنیادی رقم ادا کرنے کا کہا گیا ہے بلکہ سود در سود کی رقم اور مقدمہ بازی کے اخراجات ادا کرنے کے احکامات بھی دیے گئے۔صرف 2017 میں نو پاور کمپنیوں نے پاکستان کے خلاف 11 ارب روپے کے مقدمات جیتے اور عدالت نے تین ارب روپے سود ادا کرنے کا بھی حکم دیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ عدالت نے مقدمات پراٹھنے والے اخراجات بھی حکومت پاکستان کو ادا کرنے کا حکم دیا جو 60 کروڑ روپے بنتے ہیں۔ اکتوبر دو ہزار بیس میں حکومت نے انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ ہونے والی مفاہمتی یادداشتوں (ایم او یوز) پر جلد از جلد عملدرآمد کے لیے اعلیٰ سطح کی کمیٹی دوبارہ تشکیل دی۔ وزیر توانائی عمر ایوب کے بجائے وزیراعظم کے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کمیٹی کی سربراہی کریں گے اور شہزاد قاسم کی جگہ تابش گوہر جبکہ دیگر اراکین میں کوئی تبدیلی نہیں ہو گی۔چند روز قبل تابش گوہر کے مستعفی ہونے کے باعث بعض امور میں تاخیر کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ کمیٹی آئی پی پیز کے ساتھ مذاکرات کے نتائج پر عملدرآمد کے سلسلے میں مزید اقدامات اٹھانے کے لیے تشکیل دی گئی۔بتایا گیا کہ کمیٹی 6 ماہ کے عرصے میں مفاہمتی یادداشتوں کو قابل عمل بنانے اور انہیں معاہدوں میں تبدیل کرنے کے لیے درکار تمام اقدامات اُٹھانے کی ذمہ دار ہوگی۔ کمیٹی کی ذمہ داریوں میں شامل تھا کہ ان آئی پی پیز کے لیے تمام متعلقہ وزارتوں، اداروں، اتھارٹیز اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ رابطے کرے جنہوں نے مفاہمتی یادداشت پر دستخط نہیں کیے۔کابینہ کمیٹی برائے توانائی اور کابینہ کو اپنی سرکاری سمریز میں آئی پی پیز مذاکراتی کمیٹی اور محکمہ توانائی نے 47 آئی پی پیز کی 28 سالہ مدت پوری ہونے تک 8 کھرب 36 ارب روپے سے لے کر 8 کھرب 66 ارب روپے کی بچت کا دعویٰ کیا تھا۔حکومت آئی پی پیز کو کی گئی زیادہ ادائیگیوں کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ ریلیف لینے کی خواہش مند ہے تاکہ گردشی قرضوں کا بوجھ کم سے کم ہو سکے۔ بلاشبہ نجی پاور کمپنیوں کی مدد سے پاکستان میں بجلی کی طلب پوری کرنے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی ہے تاہم نجی کمپنیوں سے معاہدے کرتے وقت بہت سے اہم معاملات کو نظر انداز کیا گیا۔اس غفلت کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاور سیکٹر میں نئی سرمایہ کاری آنا بند ہو گئی۔شفافیت نہ ہونے سے قانونی تنازعات پیدا ہوئے اور گھریلو و صنعتی صارفین پر اضافی بوجھ پڑا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے مفاہمتی یادداشت کے بعد نجی پاور کمپنیوں کے ساتھ حتمی معاہدہ کرنے کے لئے ایک طویل مشق کی ہے ،ابتدائی طور پر ساہیوال کی ایک پاور کمپنی نے اپنے معاہدے پر نظر ثانی کے مسودے پر دستخط کئے ہیں ، بتایا جا رہا ہے کہ مزید کئی کمپنیوں کے ساتھ بات چیت حتمی درجے میں داخل ہو چکی ہے۔ نئے معاہدے ماضی کی حکومتوں کی غلطیاں سدھارنے کی ایک کوشش کے طور پر دیکھے جا رہے ہیں۔امید کی جاتی ہے کہ تمام پاور کمپنیوں کے ساتھ متعینہ مدت کے اندر حتمی معاہدے کر کے سستی بجلی کی فراہمی یقینی بنائی جا ئے گی۔
٭٭٭