ڈی چوک سے کیپٹل ہل تک پارلیمنٹوں پر حملے!!!

0
330

Ramzan Rana. Legal Analyst. M. A , LLB & LLM (USA

پاکستان کے سابقہ کھلاڑی عمران خان چودہ اگست2014 کو یوم آزادی کے موقع پر اپنے احتجاج کا آغاز کرتے ہوئے اسلام آباد کی طرف چڑھ دوڑا جن کے ساتھ ان کا منہ بولا کزن مولانا طاہر القادری بھی شریک تھاجن کی نفری عمران خان کی پانچ ہزار تعداد سے تین گنا زیادہ تھی۔دونوں میں دوڑ تھی کہ سب سے پہلے ڈی چوک پر کون ڈیرہ ڈالے گا۔دونوں کے شرکاءمیں دو مختلف طبقات تھے قادری صاحب کے پاس ان کے اسکولوں کے معصوم اور یتیم بچے تھے جبکہ عمران خان کے پاس اعلیٰ کلاس سے تعلق رکھنے والے بچے اور بچیاں تھیں۔جو ہلہ گلہ اور موج میلے کے شوقین تھے جن کے پاس اپنی اپنی قیمتی گاڑیاں تھیں جنہوں نے اسلام آباد کے تمام ہوٹل بک کرا لیے تھے یہ وہ دھرنا تھا جس پر کروڑوں روپے کے اخراجات آئے تھے جو چار ماہ تک جاری رہاچنانچہ دھرنے سے تمام سرکاری عمارتوں کے راستے روک دیئے گئے۔سپریم کورٹ کو دھوبی گھاٹ بنا دیا گیا۔پارلیمنٹ وزیراعظم ہاﺅس،پی ٹی وی قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملے شروع ہوئے ہیں۔پولیس افسران کو برُی طرح زخمی کیا گیا۔سرکاری ٹی وی سٹیشن لوٹ لیے گئے۔وزیراعظم ہاﺅس پر حملہ کرکے وزیراعظم نوازشریف کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔عمران خان کے دھرنے میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ملوث تھی جن کے ساتھ وزیر داخلہ چودھری نثار بھی ملا ہوا تھا۔جو بلوائیوں کے لیے سہولت کار ثابت ہوئے جنہوں نے پولیس کو نہتا کیا جس کی وجہ سے پولیس افسران پٹتے رہے۔تھانوں سے گرفتار شدگان کو عمران خان نے بذات خود زبردستی رہا کرایا۔یہ سب کچھ ہوا جس کے سامنے سویلین حکومت بے بس اور بے اختیار نظر آئی۔پاکستان میں یہ وہ پہلا تشدد آمیز مظاہرہ تھا۔جس کے مناظر چھ جنوری کو کیپٹل ہل میں پائے گئے کہ امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ٹرمپ کے حامی بلوائیوں اور نے کانگریس پر حملہ کردیا جن کو صدر ٹرمپ نے باقاعدہ اپنی تقریر سے اُکسایا کہ وہ کانگریس پر حملہ کرکے کانگریس اور سینٹ کے سامنے الیکٹورل کی ہونے والی گنتی کو روک دیںکیونکہ صدر ٹرمپ بھی موجودہ صدارتی انتخاب کو تسلیم نہیں کر رہے ہیںحالانکہ ریاستی گورنروں، سیکرٹریز آف اسٹیٹس اور عدالتوں نے صدر ٹرمپ کے تمام دھاندلی الزامات رد کردیئے ہیںاور تصدیق کی ہے کہ صدارتی امیدوار جوبائیڈن کامیاب ہوا ہے مگر ٹرمپ بھی عمران خان کی طرح انتخابات کو تسلیم نہیں کر رہا ہے۔حالانکہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے اعلیٰ کمیشن کی تحقیقات کے بعد رپورٹ دی کہ کوئی باقاعدہ منظم دھاندلی نہیں ہوئی ہے۔مگر عمران خان نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چوہدری پر آخر دم تک الزامات لگائے رکھے کہ انہوں نے دھاندلی کرائی ہے جوکہ نہایت جاہلانہ رویہ ثابت ہوا ہے جن کو آخر کار پاکستانی قوم کو سبق سیکھانے کے لیے مسلط کیا گیا ہے تاہم چھ جنوری کو امریکی جھتے نے کانگریس پر حملہ کیا جس سے بچنے کے لیے ممبران نے کیپٹل ہل کے غار خانوں اور تہہ خانوں میں پناہ لی۔امریکی بلوائیوں کی مد دھاڑ میں پانچ افراد اور ایک پولیس افسر مارا گیا۔کانگریس کا اہم اجلاس کئی گھنٹوں تک معطل رہا ، کانگریس سے اہم کاغذات چوری ہوگئے۔خدا خدا کرکے قانون نافذ کرنے والوں نے بلوائیوں پر قابو پا لیا۔اجلاس کا دوبارہ آغاز ہوا جس میں ری پبلیکن پارٹی کے دو ممبران کے الیکٹورل پر الزامات کو رد کرتے ہوئے پوری کانگریس اور سینٹ نے نائب صدر مائیک پینس کی سربراہی میں جوبائیڈن کو امریکہ کا نیا صدر قرار دیا اور کمیلا پولی ہیرس کو نائب صدر قرار دیا۔جس کے بعد یہ بحث چھڑ گئی کہ صدر ٹرمپ کی کارروائی اورپر تشدد ر تقریر کے حوالے سے ان کا مواخذہ کیا جائے جس میں کانگریس نے فیصلہ کیا ہے کہ آئینی25ویں ترمیم کے تحت صدر ٹرمپ کو ذہنی مریض اور بلوائیوں کو کانگریس پر حملے کرنے پر اُکسانے پر مواخذہ کیا جائے جس کا آغاز ہو چکا ہے جبکہ ان کی صدارت مدت میں صرف ایک ہفتہ باقی رہ گیا ہے۔اس ہفتے میں کیا ہوتا ہے وہ اب وقت بتائے گا لیکن کیپٹل ہل پر حملہ اپنی جگہ جس کے خدشات20جنوری کو پھر ہونے کے امکانات ہیں۔
کہ اگر ٹرمپ کے حامی بلوائیوں کو کیپٹل ہل کی طرح روکا نہ گیا تو وہ پھر وائٹ ہاﺅس پر بھی حملہ کریں گے جس روز صدر جوبائیڈن حلف وفاداری اٹھا رہے ہیں۔جس کو روکنے کے لیے شاید واشنگٹن ڈی سی میں کرفیو لگانا پڑے جس طرح چھ جنوری کو میٹرو سٹی میں کرفیو نافذ کرنا پڑا تھا۔بحرحال صدر ٹرمپ کے دور حکومت میں امریکہ پوری دنیا سے کٹ کر روس کی کوئی ریاست بن کر سامنے آیا ہے جنہوں نے تیسری دنیا کی طرح آمریت نافذ کی جس کے خلاف امریکی شہریوں نے 81ملین پاپولر ووٹ اور306الیکٹورل ووٹوں سے ردعمل کا اظہار کیا تاکہ امریکہ کو کسی نازی ازم سے بچایا جائے لہٰذا صدر ٹرمپ کا اگر مواخذہ نہ ہوا تو وہ آئندہ آنے والے وقتوں کے لیے بڑا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے جس سے امریکہ نسل پرستی کا شکار ہو کر بکھر جائے گاجس کو جوبائیڈن اتحاد کے نام سے متحد کرنے کی کوشش کرگےا۔مختصر ڈی چوک سے کیپٹل ہل تک پارلیمنٹوں پر حملوں سے ثابت ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں میں نازی ازم کا دورچل نکلا ہے جس کو روکنا ضروری ہے ورنہ نہ جانے کتنے انسانوں کا خون بہہ جائے گا جس طرح جرمنی میں ہٹلر کے دور نازی ازم میں ہوچکا ہے یہی حال آج امریکہ اور پاکستان میں پایا جاتا ہے۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here