پاکستان کی تاریخ میں چند عدالتی تاریخی فیصلے ہوئے ہیں جن کو پاکستانی قوم ہمیشہ یاد رکھے گی جس میں سب سے پہے سندھ ہائیکورٹ نے گورنر جنرل غلام محمد کیخلاف فیصلہ دیا جس کی اس وقت کی فیڈرل کورٹ کے چیف جسٹس منیر احمد نے رد کر کے اس پر آمریت کی بنیاد رکھ دی تھی۔ چیف جسٹس حمود الرحمن کی سربراہی میں حمود الرحمان کمیشن بنایا گیا جس نے جنرلوں کو بنگال توڑنے کا مجرم قرار دیا مگر اس پر بھٹو نے عمل درآمد نہ کرایا، پاکستان کی تاریخ کا تیسرا بڑا عدالتی فیصلہ 2007ءمیں آیا جب سپریم کورٹ نے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں اسٹیل ملز کی جنرل مشرف کے ہاتھوں اونے پونے فروختگی پر ایکشن لے کر جنرل مشرف کے احکامات کو کالعدم قرار دیا جس کے بعد جنرل مشرف نے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو برطرف کر دیا جس کا مقدمہ سپریم کورٹ میں قائم مقام چیف جسٹس رانا بھگوان داس کی سربراہی میں چلا جنہوں نے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو با عزت بحال کر دیا، جس کے بعد اسی وحشی جنرل مشرف نے اپنے دو عہدوں کےخلاف عدالتی فیصلے کو روکنے کیے تین نومبر 2007ءکو پوری عدلیہ برطرف کرتے ہوئے آئین پاکستان معطل اور مارشل لاءایمر جنسی نافذ کر دی جس کیخلاف اندرون اور بیرون ملک تحریک نے جنم لیاجس میں دنیا بھر کی وکلاءبارز نے حصہ لیا جس کی بدولت پوری عدلیہ سولہ مارچ 2009ءکو غیر مشروط طور پر بحال کر دی گئی۔ چوتھا عدالتی فیصلہ سپریم کورٹ نے جنرل مشرف کے تمام اقدام کالعدم قرار دیتے ہوئے حکم دیا کہ جنرل مشرف کےخلاف آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ درج کیا جائے جس پر عمل درآمد کراتے ہوئے نواز حکومت میں مقدمہ درج ہوا جس میں جنرل مشرف کو سپریم کورٹ کی تشکیل کردہ اسپیشل کورٹ سزائے موت سنا دی جس پر ابھی تک کوئی عمل درآمد تو کجا مجرم کو واپس لانے کا کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا ہے، آج پھر انیس جون 2020ءکو سپریم کورٹ نے قاضی عیسیٰ کیس میں تاریخی فیصلہ دیتے ہوئے موجودہ مسلط حکومت کے ریفرنس کو بدنیتی، بددیانتی پر مشتمل غیر قانونی اور غیر اخلاقی قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے ایک با کردار اور قابل ترین جج قاضی فائیز عیسیٰ کو تمام الزامات سے بری کر دیا ہے جو موجودہ حکومت کے غیر ملکی مشیروں اور وزیروں نے لگائے تھے کہ جسٹس قاضی کے اہل خانہ جو بالغ اور زیر کفالت نہیں ہیں ان کے لندن میں مکانوں کا پتہ بتایا جائے کہ یہ مکانات انہوں نے کس طرح خریدے تھے جو کہ نہایت احمقانہ ریفرنس تھا کہ ایک جج کی جاسوسی کر کے ان کی اولاد اور بیوی کے بارے میں پوچھا جائے جس کی اسلام اور قانون اجازت نہیں دیتا ہے کہ کوئی شوہر اپنی بیوی کی جدائید یا بالغ بچوں کے مکانوں کے بارے میں بتائے جس کا قانون کے مطابق اگر وہ ملک میں ہیں تو ان سے براہ راست تحقیقاتی محکموں کے ذریعے تحقیق کرائی جائے اگر بچے بیرون ملک رہائش پذیر ہیں تو اس رہائشی ملک سے درخواست کی جائے کہ وہ تحقیق کرے یا کرنے کی اجازت دے جو برطانوی حکومت سے کہنا ناممکن ہے۔ تاہم سپریم کورٹ نے نام نہاد جھوٹوں اور مفروضوں پر مبنی صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دے دیا ہے جس کی وجہ سے حکومت پر اسی طرح مقامہ قائم کیا جائے جس طرح بینظیر حکومت کو ججوں کی جاسوسی کرنے پر ختم کیا گیا تھا لہٰذا آج بھی موجودہ حکومت کے وہی غیر قانونی اور غیر آئینی اقدام ہیں جنہوں نے ایک جج کی جاسوسی کر کے ایک جھوٹا ریفرنس بنایا جس کے بعد اب موجودہ حکومت پر توہین عدالت کا مقدمہ بنتا ہے اگر توہین عدالت میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی یا اقامہ کے ذریعے وزیراعظم نوازشریف کو برطرف کیا جا سکت اہے تو آج عمران خان کو جاسوسی اور جھوٹے مقدمے کرنے پر کیوں نہیں برطرف کیا جا رہا ہے جبکہ موجودہ مسلط حکومت کے وزیر اور مشیر جسٹس قاضی عیسیٰ کےخلاف دن رات میڈیا پر کردار کشی کرتے نظر آتے ہیں جو توہین عدالت کے زمرے میں آتے ہیں چونکہ عمران خان ملکی اور غیر ملکی طاقتوں کا ایجنٹ ہے جن پر پہلے ہی فارن فنڈنگ کیس جس میں انہوں نے امریکی کارپوریشنوں سے بڑے بڑے چندے لئے تھے جس کی آئین اجازت نہیں دیتا ہے یا پھر ان پر بنا شادی کے ایک بچی کے باپ کا مقدمہ ے جس کا ثبوت کیلیفورنیا کی عدالت کا فیصلہ ہے جس نے ثابت کرتے ہوئے عمران خان کو اس بچی کا باپ قرار دیا تھا جس کی بعد میں انہوں نے عدالت سے کسٹڈی بھی حاصل کر کے بچی کو اپنی سابقہ بیوی جمائما گولڈ اسمتھ کے حوالے کی تھی یا پھر سرکاری ہیلی کاپٹر کا غلط استعمال ، سرکاری عمارتوں کا جلاﺅ گھراﺅ اور تھانوں میں مار دھاڑ کے مقدمات درج ہیں جس پر کوئی الیکشن کمیشن اور عدالت کی جرا¿ت نہیں ہے کہ موجزہ سنگین مقدمات کا فیصلہ کر پائے جبکہ ان ہی عدالتوں نے وزیراعظم بھٹو کو پھانسی، بینطیر بھٹو، یوسف رضا گیلانی، نوازشریف کو برطرف کیا تھا مگر آج یہی عدالتیں عمران خان کےخلاف تمام مقدمات میں بے بس اور بے اختیار نظر آرہی ہیں بہر حال سپریم کورٹ کا قاضی عیسیٰ کیس میں تاریخ ساز عدالتی فیصلہ ہے جس کے بڑے دور رس نتائج برآمد ہونگے جو عدلیہ کی آزادی کا پہلا قدم ہے جو دراصل اسٹیبلشمنٹ کےخلاف فیصلہ ہو اہے جنھوں نے فیض آباد دھرنے کے بعد صدارتی ریفرنس بنا کر جسٹس قاضی کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے ،قصہ¿ مختصر مجوزہ مقدمات میں نظریہ فروخت کے خالق اور آمروں اور جابروں کے وکیل شریف الدین پیرزادہ کی روحانی اولاد فروغ نسیم جو پہلے الطاف حسین پھر جنرل مشرف، پھر جنرل باجوہ کے وکیل تھے جس میں وہ بُری طرح ناکام ہوئے آج جنرل فیض کے تیار کردہ ریفرنس میں رسوا اور ذلیل ہوئے ہیں ،موصوف وہی شخص ہیں جن کی موجودگی میں بارہ مئی اور طاہرہ پلازہ کے سانحات برپا ہوئے، عدالتوں پر گولیاں برسائی گئیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اپنے ایسے ویسے غلیظ اور نازیبا اعمالوں کیلئے ایسے وکیلوں کو استعمال کرتی چلی آرہی ہے جو قانون کی وزارت جیسی اہم عہدے سے بار بار مستعفی ہو کر ملک دشمن عناصر کی پیروی کرتے ہیں جس سے ظاہر ہو چکا ہے کہ ماضی کے اے کے بروہی اور شریف الدین پیرزادہ دوبارہ زندہ ہو چکے ہیں جو فروغ نسیم کی شکل میں پائے جا رہے ہیں۔
٭٭٭