کئی ماہ قبل حساس انٹیلی جنس اداروں کو ایسی رپورٹس ملیں جو بتاتی تھیں کہ بھارت وزیرستان اور بلوچستان میں اپنے سلیپر سیلز کو فعال کرنے کا فیصلہ کر چکا ہے۔ دو ماہ پہلے شمالی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز نے ایک بڑا آپریشن کیا جس میں دس کے قریب دہشت گرد مارے گئے۔ دوسرا معاملہ ایم کیو ایم رہنما محمد انور کے انکشافات ہیں۔ گزشتہ برس 5اگست کو بھارت کی انتہا پسند حکومت نے ریاست جموں و کشمیر کے متعلق کئی ایسے فیصلے کئے جو بھارت کے حامی کشمیری سیاستدانوں کے لئے بھی کسی صدمے سے کم نہ تھے۔ بھارت نے شیخ عبداللہ سے کئے گئے الحاق کے معاہدے کے تحت کشمیر کو جو الگ آئینی حیثیت دی تھی مودی حکومت نے اس حیثیت کا خاتمہ کر دیا۔ اس فیصلے پر کشمیری احتجاج نہ کر سکیں اس لئے انہیں زبردستی گھروں میں محصور رکھنے کے لئے مزید فوجی دستے کشمیر میں تعینات کر دیے گئے۔ کشمیری گزشتہ 10ماہ سے جبر کے ایسے لاک ڈاﺅن میں زندگی گزار رہے ہیں جہاں ان کو گھروں سے نکلنے کی آزادی ہے نہ جان کا تحفظ۔کشمیری بچوں کو ماﺅں سے الگ کر کے حراستی مراکز میں رکھا جا رہا ہے۔ بھارتی حکومت ایسے حراستی مراکز کو اصلاح گھر کا نام دیتی ہے۔ خواتین کو اغوا کیا جا رہا ہے اور ان کی عصمت دری کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔کوئی دن نہیں جاتا جب بے گناہ نوجوانوں کو بھارتی فورسز شہید نہ کریں۔پاکستان کشمیریوں کا وکیل اور تنازع کشمیر کا بنیادی فریق ہے۔ پاکستان کو کشمیر میں جاری مظالم پر خاموش رکھنے کے لئے بھارت نے کوشش کی کہ مقبوضہ وادی میں تشدد بڑھے تاکہ وہ دنیا کو بتا سکے کہ پاکستان اس تشدد کی سرپرستی کر رہا ہے۔ دوسری تدبیر یہ کی گئی کہ بلوچستان اور وزیرستان کے علاقوں میں پاک فوج نے بے مثال قربانیاں دے کر جو امن قائم کیا ہے اسے سبوتاڑ کیا جائے۔ وزیرستان میں کیپٹن اور سپاہی کی شہادت کو بھارت کی اسی منصوبہ بندی کے حوالے سے دیکھا جا سکتا ہے۔ حالیہ دنوں خطے میں ایک اہم واقعہ رونما ہوا ہے۔ اس واقعہ نے کشمیر کے متعلق نریندر مودی حکومت کی پالیسیوں کے باعث خطرات بڑھا دیے ہیں۔ لداخ کا علاقہ تاریخی طور پر ریاست کشمیر کا حصہ رہا ہے۔ اب یہ علاقہ اقصائے چین کا حصہ ہے۔ یہ علاقہ سی پیک روٹ کے قریب ہے۔ چین اور بھارت کے درمیان سرحد کو لائن آف ایکچوئل کنٹرول کہا جاتا ہے۔ بھارت نے خطے میں بطور طاقت اپنی چودراہٹ دکھانے کے لئے پچھلے کئی سال سے آزاد اور مقبوضہ کشمیر کے مابین لائن آف کنٹرول کو ہدف بنا رکھا ہے۔ دو سال میں سینکڑوں شہری‘ سکیورٹی اہلکار اور مویشی بھارتی فائرنگ کا نشانہ بن چکے ہیں۔ بھارت کے ایسے حملوں کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان تناﺅ اور کشیدگی میں کمی کے امکانات ختم ہو کر رہ گئے ہیں۔ پاکستان نے دو طرفہ اور کثیر الفریقی سطح پر بھارت کے ساتھ تنازعات کو ہمیشہ بات چیت سے حل کرنے کی بات کی ہے۔ اقوام متحدہ‘یورپی یونین‘ بین الاقوامی عدالت انصاف‘ شنگھائی تعاون تنظیم‘ سارک اور دولت مشترکہ کے اجلاسوں میں پاکستان اپنے اس موقف کو دہراتا رہا ہے۔جس کا مقصد عالمی برادری کو یہ باور کروانا ہے کہ پاکستان خطے میں امن و امان کا خواہاں ہے،بھارت جب بھی کوئی شرارت کرتا ہے تو پاکستان عالمی برادری کی توجہ اس کی مذموم حرکات کی جانب مبذول کرواتا ہے ،جس کا مقصد خطے کے حالات کو معمول پر رکھنا ہوتا ہے۔اسی بنا پر پاکستان کی جانب سے پرامن طریقے سے تنازعات کا حل تلاش کرنے کا موقف اخلاقی اور اصولی طور پر دنیا میں پذیرائی پا چکا ہے۔ خود امریکہ افغانستان میں قیام امن اور پرامن انخلا کے ضمن یں پاکستان کی اسی پالیسی سے فائدہ اٹھا رہا ہے لیکن بھارت پر یہ کھلا نرم و نازک معاملہ اب تک بے اثر رہا ہے۔ چین سٹریٹجک معاملات میں پاکستان کا اتحادی ہے۔ خطے میں تجارت اور معاشی سرگرمیوں کے فروغ کے حوالے سے دونوں کا موقف یکساں ہے۔بھارت کی کشمیر پالیسی نے عالمی طاقت چین کے مفادات کو بھی نقصان پہنچانا ہے لیکن اس سے بھی تشویشناک بات یہ ہے کہ بھارت نے لائن آف کنٹرول کی طرح چین بھارت لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر بھی اشتعال انگیزی شروع کر دی۔ بھارت نے دونوں ملکوں کے درمیان نوے کے عشرے میں ہونے والے اس معاہدے سے بھی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جس میں سرحد پر اسلحہ کے استعمال کو ممنوع قرار دیدیا گیا۔چین نے بھارت کی اشتعال انگیزیوں کے جواب میں اسلحہ کی بجائے ڈنڈوں اور مکوں کے ذریعے 40بھارتی فوجی مار دیے۔ چین نے پوری وادی گلوان کو اپنی ملکیت قرار دیدیا۔
٭٭٭