ماجد جرال
دیار غیر میں موجود پاکستانی کمیونٹی کی تنظیمیں بلاشبہ پاکستان کی سفارتی محاذ پر مدد کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کرتی ہیں، ان تنظیموں کے افراد وہ مخلص اور دیانتدار کارکن ہوتے ہیں جو سفارتی میدان میں مخالف ممالک کی پروپگنڈا مہموں کا بھرپور جواب دیتے ہیں۔ امریکہ میں اس وقت متعدد پاکستانی کمیونٹی کی تنظیمیں موجود ہیں، کبھی اپنے طور پر کسی نہ کسی طرح پاکستان کے نام کو یہاں پر زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان ڈے پریڈ ہو یا پاکستانی کمیونٹی کے میلے، یوم پاکستان کی تقریب ہو یا یوم آزادی پاکستان کا موقع، یوم دفاع ہو یا یوم تکبیر سمیت ہر وہ موقع جو پاکستان کے تشخص کو اجاگر کرتا ہے، ان کمیونٹی تنظیموں کے زیر انتظام وہ تمام دن یہاں منائے جاتے ہیں۔
ایک بات جس پر بڑا زور دیا جاتا رہا ہے وہ یہ کہ پاکستانی کمیونٹی کو امریکی سیاسی ایوانوں تک نہ صرف رسائی حاصل کرنی چاہیے بلکہ ان کا پاکستان کے ایشوز کو بھی پہنچانا چاہیے، مگر عملی طور پر اس طرف پاکستانی کمیونٹی تنظیموں کا سفر سست روی کا شکار ہی رہا۔ مگر اب یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے نہ صرف اس سفر کا آغاز ہو چکا ہے بلکہ پہلی منزل کو پا لیا گیا ہے۔ میں جس منزل کا ذکر کر رہا ہوں یہ یوم یکجہتی کشمیر کے سلسلے میں نیویارک اسٹیٹ اسمبلی کے جانب سے باضابطہ اور سرکاری طور پر قرارداد کی منظوری سے متعلق ہے۔ اس قرارداد کی منظوری کے بعد پاکستان اور بھارت کے مابین عرصہ طویل سے موجود مقبوضہ کشمیر کے متنازعہ معاملے پر بڑے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔اس اہم قدم اور منزل کو پانے پر یقین امریکن پاکستانی ایڈوکیسی گروپ خراج تحسین کا مستحق ہے،اس تنظیم نے 2019 میں یوم پاکستان کو بھی نیویارک سے سرکاری طور پر تسلیم کروایا، جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ تنظیم بنیادی طور پر سڑکوں پر آنے کی بجائے ایوانوں میں جانے کو ترجیح دیتی ہے۔امریکن پاکستانی ایڈوکیسی گروپ کولیڈ کرنےوالے نوجوان رہنما علی رشید ذاتی طور پر بھی ایک اس بات میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں کہ پاکستان سے متعلقہ امور کو اب امریکی ریاستی اسمبلیوں اور پلیٹ فارم پر اٹھایا جائے۔ نیویارک اسٹیٹ اسمبلی سے یومِ یکجہتی کشمیر قرارداد منظور ہونے کے بعد میں نے علی رشید کے انٹرویو کا فیصلہ کیا، ان سے میری ملاقات بڑی خوشگوار رہی، مجھے خوشی ہوئی کہ نوجوان ہونے کے باوجود علی رشید پاکستانی کمیونٹی کو مستقبل میں امریکی سیاست میں اہم مقام پر دیکھنا چاہتے ہیں، ان سے بات چیت کے دوران مجھے اس بات کا اندازہ ہوا کہ وہ ذاتی طور پر کسی بھی عہدے یا مقصد کے لیے یہ کام نہیں کر رہے بلکہ حقیقت میں ان کی خواہش ہے کہ پاکستانی کمیونٹی امریکی سیاسی سرگرمیوں کا حصہ بنے، خصوصاً جب میں نے یہ سوال کیا کہ وہ اپنا مستقبل کیا دیکھتے ہےں تو انہوں نے بغیر ایک لمحے توقف کیے بغیر کہا کہ وہ یہ معاملہ مستقبل پر چھوڑتے ہیں، حالانکہ میں تصور کر رہا تھا شاید وہ جواب دےں وہ بذات خود سٹی یا اسٹیٹ کے کسی ادارے کے انتخابات میں حصہ لینا چاہتے ہیں، مگر انہوں نے یہ کہنے کی بجائے عندیہ دیا کہ وہ صرف پاکستانی کمیونٹی کو امریکی سیاست میں فعال دیکھنا چاہتے ہیں۔پاکستانی عوام کو امریکی سیاست میں فعال ہونا چاہیے اس بات کا اظہار متعدد پلیٹ فارم پر کیا جاتا رہا ہے، مگر حقیقت میں دیکھا جائے تو اس کے لیے بے تحاشہ کام کرنے کی ضرورت ہے، ایسا کام کیا جائے جو کہ امریکی ایوانوں میں پاکستانی تشخص کو اجاگر کرے، امریکی ایوانوں میں پاکستانی کمیونٹی کی پہچان زور دار انداز میں کروائے۔ امریکن پاکستانی ایڈوکیسی گروپ کے سربراہ کے جو عزائم ہیں، وہ ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستانی کمیونٹی امریکی سیاست میں فعال ہونے کے طرف گامزن ہو چکی ہیں، جو کہ ہمارے لئے انتہائی ضروری ہے۔
سفارتی محاذ پر مخالف ممالک کو جواب دینے کے لیے پاکستانی کمیونٹی کا امریکی سیاست میں اپنا ایک مقام بنانا بہت ضروری ہو گیا ہے، اگرچہ یہ سفر ابھی شروع ہوا ہے، مگر ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ کمیونٹی کے تعاون سے اب یہ سفر رکے گا نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ منزل کی طرف سفر شروع کرنے کے لیے پہلا قدم اٹھانا ضروری ہے، میں سمجھتا ہوں کہ امریکن پاکستانی ایڈوکیسی گروپ کی جانب سے یوم یکجہتی کشمیر کے قرارداد نیویارک کی سٹیٹ اسمبلی کے منظور کروا لینا وہ پہلا قدم ہی ہے۔
(اپنی آراءیا تجاویز ہے لیے اس نمبر پر واٹس ایپ کریں،6463531386)