امریکہ میں نسل پرستی رنگ لا رہی ہے

0
154

امریکہ میں شہری اور انسانی حقوق کی تحریک زوروں پر ہے،میں نے امریکی ریاستوں140شہروں کو لپیٹ میں لے رکھا ہے جبکہ چالیس شہروں بشمول واشنگٹن ڈی سی میں کرفیو لگا ہوا ہے۔جس پر امریکی صدر ٹرمپ فوج کشی کی دھمکیاں دے رہا ہے جو ریاستوں کے گونروں اور شہروں کے مشیروں کے قانونی اور آئینی اختیارات میں مداخلت کے مترادف ہے جس کے خلاف امریکہ کے سابقہ اور حاضر ڈیوٹی جنرلوں اور ڈیفنس سیکرٹریوں نے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے کہ عوام پر فوج کشی آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔آج امریکہ میں1880کا سول وار کا زمانہ نہیں ہے کہ احتجاج کرنے پر عوام پر فوج چڑھ دوڑے جس کو سن کر مجھے پاکستان کے جنرلوں کے بارے میں یاد آگئی۔ انہوں عوامی غم وغصے کی آڑ میں نظریہ ضرورت بنا کر پانچ مرتبہ عوام پر فوج کشی کی ہے جس میں دو مرتبہ آئین منسوخ اور تین مرتبہ آئین حاصل کیا گیا، منتخب حکومتوں پر قبضے کیلئے پارلیمنٹوں کو برطرف کیا جو آئین کے مطابق غداری کے مترادف ہے جس پر عدالت نے ایک فوج جنرل مشرف کی سزائے موت دی تو اسٹیبلشمنٹ نے شوروغل مچا دیاجبکہ پاکستان کا تین مرتبہ منتخب وزیراعظم نوازشریف اور صدر آصف علی زرداری جیلوں میں پڑے رہے یا دوبارہ جیلوں میں بھیجنے کی تیاریاں زوروں پر ہیںمگر جنرل مشرف پر کوئی بھی طاقتیں ہاتھ نہیں ڈال سکی ہیں ،امریکی حکمرانوں نے عراق، لیبیا اور شام میں جو قتل عام کیا ہے جس میں لاکھوں عرب شہری قتل، زخمی اور گھر بدر ہوئے ہیں وہ بیہمانہ طریقہ امریکہ میں نہیں دہرایا جاسکتا ہے تاہم جرمن نژاد صدر ٹرمپ جن کے دادا جرمنی سے آکر امریکہ میں آباد ہوئے تھے جو امریکی جرمن امیگرینٹس کی دوسری نسل ہیںانہوں نے دو ہزار سولہ میں اپنی صدارتی انتخابی مہم میں جس نسل پرستی کی مہم کا آغاز کیا تھا وہ آج رنگ لا رہی ہے جس کے اثرات امریکی پولیس میں پائے جارہے ہیں۔جو سیاہ فاموں اور اقلیتوں پر تشدد کرتے نظر آرہے ہیں۔جس کی تازہ تازہ مثال سیاہ فام جارج فلائیڈ ہے کہ جن کا پولیس والوں نے بیس ڈالر نوٹ کی آڑ میں قتل کردیا۔ٹرمپ نے نسل پرستی کاسات مسلمانوں کے ملکوںکے باشندوں کے خلاف بھی اپنے ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے استعمال کیا تھاجس میں سفارتکاروں اور امیگریشن ڈیپارٹمنٹ کو حکم دیا کہ صومالیہ، سوڈان،لیبیا، سمن، شام، عراق اور ایران کے مسلم باشندوں کو ویزے جاری نہ کیے جائیںجن کو ویزے جاری ہو چکے ہیں وہ منسوخ کر دیئے جائیں جو ویزوں پر امریکہ آچکے ہیں۔اس میں امریکہ بدر کیا جائے جس کے خلاف انسانی حقوق کی تنظیموں نے عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے تو عدالتوں نے صدر ٹرمپ کے اس آرڈر نمبر13769کو رد کردیا جس میں عدالتوں نے حکم دیا کہ آرڈر امریکی آئین کی نفی کرتا ہے۔جو دنیا بھر کے انسانوں کو رنگ نسل، قومیت اور عقیدے کی بنا پر امتیازی سلوک کی ممانعت کرتا ہے۔لہٰذا ادارے اور محکمے صدارتی آرڈر پر عملدرآمد نہ کریں جس کا حکومت سپریم کورٹ میں چلی گئی جس نے بھی مشروط طور پر آرڈر کو بحال کیا تھا۔بہر کیف پچھلے دو ہفتے سے امریکہ میں منی سوٹا کے شہر مناپولیس میں ایک سیاہ فام جارج فلائیڈ کا پولیس کے ہاتھوں بے دردی اور بے رحمی سے قتل کے بعد پورا امریکہ احتجاجیوں کی زد میں آچکا ہے۔جس میں زیادہ تر پرامن احتجاج جاری ہے جس میں سیاسی پارٹیوں، گرین پارٹی اور دوسری بائیں بازو اور لبرل پارٹیاں بھی شامل ہیںجو امریکہ میں درپیش ناانصافیوں اور امتیازی سلوک کے خلاف روزانہ جلسے اور جلوس منعقد کر رہی ہیںجس میں میئرز اور عہدیداران بھی شریک ہو رہے ہیں۔اگرچہ امریکہ میں ایک سیاہ فام کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت ہوئی ہے جس سے امریکہ میں ایک سوملین آباد اقلیتوں میں سخت بے چینی پھیل چکی ہے جو روز بروز کسی بڑی تحریک اختیار کرنے کا رخ اپناتی نظر آرہی ہے جس میں بلاتفریق لوگ شامل ہو رہے ہیںجو امریکہ میں بڑھتی ہوئی نسل پرستی کے خلاف متحد ہو رہے ہیں۔جسکا اضافہ آج شہری حقوق تحریک کے ہیرو مارٹن لوتھرکنگ کے بعد دوسری بڑی تحریک ہے جس نے پورے امریکہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔جس کا دائر کار امریکہ سے باہر بیرونی دنیا میں پھیل چکا ہے۔کہ آج لندن، فرانس، جرمنی ساﺅتھ کوریا، ہانگ کانگ، اور افریقہ تک پھیل چکا ہے۔کہ یہاں پر لوگ اپنی اپنی مشکلات اور مسائل کی خاطر جارج فلائیڈ کے قتل کی بنا پر لوگ سڑکوں پر آچکے ہیں۔مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں بھوک ،لنگر غربت، افلاس بے روزگاری اور بیماری کے باوجود بے حسی اور لاتعلقی نظر آرہی ہے جبکہ پاکستان میں امریکہ کی نسبت لاکھوں گنا زائد زیادتیاں ہو رہی ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here