میانمار میں مارشل لاءکی تاریخ!!!

0
133
پیر مکرم الحق

پیر مکرم الحق،انڈیانا
mukarampeer@gmail.com

قارئین کی اکثریت آگاہ ہوگی کہ برما جسکا ایک شہر رنگون بھی برصغیر نہایت مشہور ہوتا تھا۔اسکا نیا نام میانمار ہے۔یہ ملک دو جوانوں سے دنیا بھر میں مشہور رہا ہے۔ایک حوالہ اچھا اور دوسرا برا حوالہ ہے۔اچھا حوالہ یہ ہے کہ یہاں پر جمہوریت کی ایک بڑی اور طویل جدوجہد رہتی آئی ہے اور اس ملک کی ایک خاتون رہنما کو انکی جمہوری جدوجہد کیلئے نوبل پرائز دیا گیا تھا،انکا نام آنگ من سو کوئی ہے۔55سالہ اس خاتون کو1991 میں نوبل پرائز(اس انعام کو عالمی سطح پر ممتاز حیثیت حاصل ہے)دیا گیا۔
میانمار(برما) کا ایک افسوسناک اور غیر انسانی حوالہ بھی ہے۔2016ءمیں اس ملک کے بدھ مت سادہوں نے فوج اور پولیس کے ساتھ ملکر ملک میں بسنے والے مسلمان رہو نگاز کا قتل عام کیا جیسے پوری دنیا نے ایک غیر انسانی نسل پرست قتل عام کہا اور آنگ سوئی نوبل یافتہ ہونے کے باوجود بھی عالمی سطح پر شدید تنقید کا نشانہ بنی۔آخر کار سات لاکھ روہنگیاز کو نقل مکانی کرنی پڑی ،آج ان روہنگیاز پناہ گزینوں کی اکثریت بنگال(بنگلہ دیش) میں رہائش پذیر ہیں۔پرانے برما اور موجودہ میانمار کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے اس ملک میں فوجی مداخلت کا قصہ پاکستان سے بہت ملا جلتا ہے۔عجیب بات یہ ہے کہ اس ملک کو برطانوی راج سے آزادی بھی1947ءمیں ملی تھی اور اقتدار پر فوجی قبضہ بھی1958 سے ہی شروع ہواتھا۔اتفاق یہ بھی ہے کہ ایوب خان نے صدر پاکستان کا عہدہ28اکتوبر1958ءمیں سنبھالا اور برما کے پہلے فوجی حکمران نے29اکتوبر1958ءکو برما کے وزیراعظم کے عہدہ پر قبضہ کرلیا۔اس مماثلت کومحض اتفاق کہا جائے یا برطانوی راج کی باقیات کی کرشمہ سازی کہا جائے۔بحرحال اس وقت سے لاکر آج تک پاکستان اور برما کی بدقسمت عوام نے کھل کر جمہوری فضا میں سانس نہیں لیا۔پاکستان میں محترمہ بےنظیر بھٹو قیدوبند کی صعوبتیں اپنی پارٹی کارکنان کے ساتھ جھیلی اور برما میں آنگ سوچی نے جھیلیں ہیںبلکہ آج بھی وہ نظر بند ہیں۔رنگون میں1945ءمیں پیدا ہونے والی ہے۔75سالہ خاتون جو آج برما میں مارشل لا کے بعد بھی نظر بند ہیں۔اپنے سیاسی سفیر میں کل17سال قید کاٹ چکی ہیں۔جو برما کی فوج پر جب بھی عالمی دباﺅ بڑھتا ہے تو وہ کچھ عرصہ کیلئے لولی لنگڑی جمہوریت لاکھڑی کر لیتے ہیں۔لیکن جیسے ہی وہ سویلین حکومت کل پُرزے نکالنا شروع کرتی ہے،اسے فارغ کردیتے ہیں۔حال ہی میں یعنی8نومبر2020ءکو برما میں نئے انتخابات ہوئے جس میں آنگ سانگ سوچی(خاتون رہنما) کی جمہوری پارٹی نے138نشستوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ فوج کی حمایت یافتہ جماعت سوشلٹ لیگ کو صرف سات نشستوں پر کامیابی ملی جس کے بعد فوج نے نئے انتخابات کو تسلیم کرنے سے انکارکردیا اور پہلی فروری2021 کو برما میں مارشل لا لگا دیا گیااگر تو اب بھی امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ صدر ہوتے تو وہ برمی فوج کی مارشل لا پر تالیاں بجاتے واہ واہ کرتے لیکن برما کی فوجی آمریت کی بدقسمتی ہے کہ اب امریکہ کی صدارت جمہوریت پسند جوزف بائیڈن کے پاس ہے جنہوں نے سخت مالی پابندیاں عائد کرکے برما کے فوجی جنرلوں کا ناطقہ بند کر دیا ہے اور اقوام متحدہ کو ان جنرلوں کی جمہوریت دشمن رویوں کے خلاف متحرک ہونے کی سفارش کردی ہے۔پاکستان اور برما کی عوام کی بدقسمتی کا آغاز بھی ساتھ ہوا تھا۔اب یہ دیکھنا ہے کیا مغربی طاقتیں اب بھی مصلحت سے کام لیتے ہوئے فوجی قبضوں پر خاموش رہتی ہیں یا عوام کے جمہوری حقوق پر بھرپور مدافعت کا مظاہرہ کرتی ہیں۔نومنتخب امریکی صدر جو خارجہ امور اور بین الاقوامی معاملات میں ایک طویل تجربہ رکھتے ہیں،انکی سوچ واضع طور پر آمریت مخالف ہے اور وہ عالمی سطح پر امریکہ کی گرتی ساکھ کو سنبھالا دینے کے ساتھ آمروں کو یہ کھلا پیغام دینے کے حق میں ہیںکہ اب آمروں کے دن گنے جا چکے ہیں۔صدر بائیڈن نے سعودی شہزادہ محمد بن سلمان کو بتا دیا ہے کہ یمن کے نہتے لوگوں پر بمباری کو فوراً بند کیا جائے۔امریکہ اب سعودی حکومت کو کوئی ہتھیار یا گولہ بارود مہیا نہیں کریگی۔وہ یعنی بچوں کے قتل عام میں شراکت ہرگز نہیں چاہتی۔اب ٹرمپ کی اقتدار سے روانگی کے بعد سعودی شاہوں کیلئے اندرونی اور بیرونی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔
صدر جوبائیڈن نظریاتی طور پر انسانی حقوق کی پامالی کے شدید مخالف ہیں اور اسی حکومتوں اور حکمرانوں کے خلاف عالمی سطح پر رائے عامہ کو انکی مخالفت میں ہموار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔پاکستان کے حوالے سے بھی عمران خان کے زلفی بخاری جیسے غیر ملکی چھیتے جو ٹرمپ کے وائٹ ہاﺅس کی مہمان نوازی کے مزے لوٹتے رہے ہیںاور ٹرمپ کے داماد جیری کشنر کی دوستی کے مزے لوٹتے رہے ہیںاور پی آئی اے کی نیویارک میں موجود روز ویلٹ میں رہے ہیں۔ہوٹل کی فروخت کے لئے جو درمیانی پارٹی کے ساتھ معاملات طے کئے گئے تھے اس کے اب منظر عام پر آنے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔بکرے کی ماں یا باپ کب تک خیر منائیں گے۔وہ دن دور نہیں جب جنرلوں کی کرپشن کی غضب کہانی کامران خان کی زبانی پاکستانی ٹی وی چینلز کی زینت بنے گی جب تک جی ایچ کیو میں سے بدعنوانی کا خاتمہ نہیں ہوتا تب تک پاکستانی معاشرہ کرپشن کے موذی مرض کا مریض رہے گاکیونکہ برف ہمیشہ چوٹی(پہاڑی)سے پگھلتی ہے۔جنرلوں کی اقتدار کی بھوک کی بنیاد ہی بدعنوانی اور ناجائز دولت کی لالچ ہے ورنہ اقتدار کوئی پھولوں کی سیج نہیں، عوام کی خدمت ہے اور عوام کبھی بھی اقتدار میں بیٹھے لوگوں کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہوتی۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here