پیر مکرم الحق،انڈیانا
mukarampeer@gmail.com
کچھ دنوں پہلے سوشل میڈیا پر پاکستان کے پہلے آئین ساز وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی اکتالیسویں برسی کے موقع پر مختلف مضامین اور تصاویر دیکھنے میں آئیں پھر پاکستان کے موجودہ حالات بھی سامنے ہیں یقین جانئیے دل مغموم ہو گیا پاکستان نے کیا ذہین اور دُور اندیش لیڈر اپنے ہی میر صادقوں کے ہاتھوں گنوا دیا۔ بھٹو کا خواب تھا کہ پاکستان کو دنیا کے صف اول کے ممالک میں شامل کر دے، چھ سات سال کے عرصہ میں کتنی اصلاحات اور کتنے بڑے پراجیکٹ پاکستان میں شروع ہوئے لیکن جب 1974ءمیں بھٹو نے دوسری اسلامی سربراہی مملکت کانفرنس کا انعقاد کیا تو بین الاقوامی قوتوں نے بھانپ لیا کہ اس شخص کی ذہانت اور اہلیت ایسی ہے کہ یہ مسلم ممالک کویکجا کر کے ایک مضبوط ترین بلاک بنا کر اسرائیل اور امریکہ کیلئے مسائل پیدا کر سکتا ہے تنظیم برائے اسلامی ممالک او آئی سی کی تشکیل 1969ءمیں کوالالمپور میں ہونےوالے ایک اجلاس میں ہوئی اور ملائیشیا کے نامور سیاستدان اور وزیراعظم تتکو عبدالرحمن کو اس تنظیم کا پہلا سیکرٹری جنرل منتخب کیا، تنکو عبدالرحمن نے ملائیشیا کو برطانوی تسلط سے آزادی دلوانے میں مرکزی کردار ادا کیا تھا اسی لئے انہیں باپو، کا خطاب ملا تھا مطلب کہ وہ بابائے ملائیشیاسمجھے جاتے تھے ۔پیشہ کے لحاظ سے وکیل تھے 1955ءسے 1970ءایک سربراہ مملکت رہنے کے بعد انہوں نے 1975ءتک اسلامی تنظیم کے سیکرٹری جنرل کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ تنکو عبدالرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو وکیل ہونے کے علاوہ محب وطن اور اعتدال پسند مسلمان بھی تھے۔ 1973ءمیں تنکو عبدالرحمن کو شدت سے احساس تھا کہ ان کی تنظیم روبہ زوال سے کوئی خاص تاثرپیدا نہیں کر پائی ہے، اس لئے انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کےساتھ ایک نشست میں یہ طے کیا کہ ایک اسلامی ممالک کی سربراہ کانفرنس کا انعقاد کیا جائے جس کی صدارت کیلئے ذوالفقار علی بھٹو کا نام تجویز کیا جسے بھٹو صاحب نے خوشنودی سے قبول کیا اور لاہور کو میزبانی کا شرف بخشنے کی درخواست کی۔ اس طرح نہ صرف یہ کہ پاکستان کے منتخب وزیراعظم کو اسلامی تنظیم کے سربراہان کے اجلاس کی صدارت نصیب ہوئی بلکہ شہر لاہور کو اس اہم ترین اجلاس کی میزبانی کرنے کا شرف بھی بخشا گیا۔ 22 تا 24 فروری 1974ءمیں اس اجلاس کی کارروائی میں شامل ہونےوالے اہم سربراہان میں سعودی عرب کے شاہ فیصل، فلسطین کی آزادی کے مجاہد یاسر عرفات، مصر کے انور سادات، لیبیا کے معمر قذافی، الجذائر کے صدر بومدین، کویتی شاہ الصباح اور بنگلہ د یش کے منتخب وزیراعظم شیخ مجیب الرحمن بھی موجود تھے۔ بنگلہ دیش کو پاکستان کے تسلیم کئے جانے کے بعد ہی باقی اسلامی ممالک نے بھی تسلیم کیا تھا، تمام سربراہان مملکت نے اجلاس کے دوران نماز جمعہ لاہور کی بادشاہی مسجد میں اکٹھے ادا کی ،اس روح پرور منظر کو دیکھنے والی آنکھیں پرنم تھیں۔ اس تاریخی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اس تین نقاطی قرارداد کو پڑھ کر سنایا تھا جو مندرجہ ذیل ہےں۔ 1۔ اردن، شام، مصر اور فلسطین کی ا پنی زمین کو آزاد کرانے کی حمایت۔ 2۔ فلسطین کے مسئلے کے حل کو یقینی بنانے کا عہد کیا گیا۔
3۔ اسلامی ثقافت، یکجہتی اور تعلیم کی ترویج کیلئے ایک اسلامی یکجہتی فنڈ کے قیام کا اعادہ کیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اہم سربراہان مملکت کو آمادہ کیا کہ وہ غریب مسلم ممالک کی مالی مدد کر کے ان ممالک کے حالات بہتر کرنے میں تنظیم کی مدد کرینگے۔ اسلامی بنک کے تصور نے بھی جنم اسی ہی اجلاس میں لیا مگر اس اجلاس نے مغربی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا اب تک عرب ممالک اپنی دولت، مغربی مالی اداروں یا بنکوں میں رکھتے آرہے تھے مغربی دنیا کی معاشی صحت کیلئے پیٹرو ڈالر (تیل سے کمائے گئے ڈالروں) کی مرکزی اہمیت سے با خبر مغربی ممالک فوراً ہی متحرک ہو گئے ۔بڑی بڑی خفیہ ایجنسیوں نے خطرناک سازشیں گھڑنا شروع کر دیں جس کے نتیجے میں اس اجلاس میں شامل اہم ترین سربراہ شاہ فیصل کو 25 مارچ 1975ءکو ایک سال بعد انہی کے بھتیجے فیصل بن مسید نے پستول کی گولی مار کر ہلاک کر دیا، قاتل چند روز پہلے ہی امریکہ سے اپنی تعلیم مکمل کر کے سعودی عرب پہنچا تھا، الجزائر کے حواری بومدین بھی 1978ءمیں اڑتالیس سال کی کم عمری میں پُر اسرار حالات میں فوت ہو گئے۔ 1979ءکی 4 اپریل کو پاکستان کے میر صادق جنرل ضیاءنے ایک سازش کے ذریعے اپنے آقاﺅں کی خواہش کے مطابق اسلامی کانفرنس کے سربراہ اجلاس کے صدر ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر پہنچا دیا۔ 1981ءمیں انور سادات کو اپنے ہی فوجی کے ہاتھوں گولی مار کر ہلاک کروا دیا گیا لیکن تمام دباﺅ کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو نے اس اجلاس کے شرکاءکے تعاون سے اسلامی دنیا کے پہلے ایٹمی طاقت رکھنے والے ملک کا اعزاز بھی پاکستان کو حاصل کروا دیا۔ یہ جرم بھی ان کے قتل کا سبب بنا اگر ذوالفقار علی بھٹو کو دس سال بھی مل جاتے تو وہ پاکستان کو ایک ناقابل تسخیر قلعہ بنانے میں کامیاب ہو جاتے۔ بھٹو نے مزدور و کسان کو عزت نفس کا احساس دیا، اپنے حق کیلئے جدوجہد کا راستہ دکھایا۔ روٹی، کپڑا اور مکان کا منشور دیا۔ اور آج کے حکمرانوں کا ٹولہ آٹے اور چینی چوروں پر مشتمل ہے وزیراعظم کی سیاست میں مالی اعانت کرنے والا دوست چینی مافیا کا ڈان ہے، پاکستان کو اس ادارے نے جس کا کام حفاظت کرنا تھا چوروں کو بیچ دیا۔
٭٭٭