عمران خان صاحب اور تحریک انصاف نے ایک نیا بیانیہ اور شور سے شروع کیا ہوا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے مقبول اور بڑی سیاسی جماعت ”تحریک انصاف” ہے۔ یہ سراسر جھوٹ ہے کیونکہ کسی ماضی کی الیکشن میں ایسی کوئی بات ثابت نہیں ہوئی ہے۔2018ء کے انتخابات میں بھی تحریک انصاف کے پاس سادہ اکثریت بھی نہیں تھی باوجود اس حقیقت کے اسٹیبلشمنٹ کی مکمل اور بھرپور حمایت حاصل تھی۔ اگر آزاد امیدواروں اور (ن) لیگ کے لوٹے انہیں مہیا نہیں کئے جاتے تو یہ حکومت اس وقت بھی نہیں بنا سکتے تھے جبکہ تاریخ گواہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے جب ایوب خان کی حکومت سے علیحدگی اختیار کی اور1967ء میں پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد ڈالی اور عوامی مہم کا آغاز کیا تو تین برس کے قلیل عرصے میں عوام کا جم غفیر انکی حمایت میں سڑکوں پر نکل آیا اور1970کے انتخابات میں انکی جماعت نے مغربی پاکستان میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی حالانکہ اسٹیبلشمنٹ نے بھی انکی اندرونی طور پر شدید مخالفت کی اور جنرل یحیٰی خان کو خفیہ اداروں نے یہی رپورٹ دی تھی کہ ذوالفقار علی بھٹو چند سیٹوں پر کامیابی حاصل کر پائیں گی اور کوئی جماعت سادہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوگی لیکن نتائج تمام اداروں کیلئے حیران کن تھے۔ بھٹو کے برعکس عمران خان پچیس سال سے کوشش کرتے رہے چند سیٹوں سے زیادہ کچھ حاصل نہیں کر پائے۔ ابتدا میں ایک ہی سیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور ہمیشہ کہتے رہے کہ میں کبھی بھی اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اقتدار تک پہنچنا عوامی مینڈیٹ کی توہین سمجھتا ہوں لیکن2014ء میں انہوں نے محسوس کرلیا تھا کہ عوام میں کوئی خاص پذیرائی حاصل نہیں کر پائے تو انہوں نے آخر کار اسٹیبلشمنٹ میں ہمدردیاں تلاش کرنا شروع کردیں اور آخر کار فیض یاب ہو ہی گئے۔ پہلے استاد جنرل حمید گل ملے جو کھل کے اعتراف کرتے تھے کہ انہوں نے ہی عمران خان کو سیاست کے میدان میں اتارا۔ حسن اتفاق دیکھئے کہ میدان میں اتارنے والے بھی آئی ایس آئی کے سربراہ تھے اور اختتام تک پہنچانے والے بھی اسی ادارے کے سربراہ تھے تو اس لحاظ سے دیکھا جائے کہ انکی سیاسی میدان میں کو جنگ اسی ادارے کے ماہرین کے ہاتھوں میں ہی ہوئی۔ جنہوں نے انہیں یعنی نفسیاتی جنگ کے دائو پیچ سکھائے جس میں ہٹلر کے مشہور زمانہ پروپیگنڈہ کے ماہر جنرل کو بل کے خیال کے مطابق جھوٹ کو باربار دُہرانے کا حربہ کامیاب ترین ہتھیار ہے اور یہ حربہ وقتی طور پر کامیاب بھی ہوا۔ شخصی سطح پر آپ کو ا سکا بخوبی اندازہ ہوگا کیونکہ ہر انسان زندگی کے کسی نہ کسی حصہ میں اس مرحلے سے لازماً گزرہ ہوگا کہ آپ کے کان میں کوئی آپکا قریبی شخص اگر بار بار کسی اور کیلئے آپکو اکساتا رہے تو ایک وقت آئیگا کہ آپکا دل اس انسان کے لئے آپکو اکسایا جاتا رہا ہو۔ میل ضرور پیدا ہوگا۔ ذاتی سطح پر یہ حربہ اکثر ہمارے گھروں میں خواتین لگائی بجھائی کے ذریعے استعمال کرتی ہیں۔ ساس اور بہو کے جھگڑے میں یہ ہتھکنڈا کثرت سے استعمال ہوتا ہے۔ بڑے پیمانے پر عوام کیلئے اور دشمن فوج کیلئے بڑا کامیاب حربہ ہے۔ جنگ میں اکثر اور سیاست میں کبھی کبھی یہ حربہ استعمال ہوتا ہے۔ حقیقت ہم نے تحریک انصاف کے پچھلے دس ماہ میں انکے اجتماعات میں عوام کی کم تعداد میں شرکت سے دیکھ لی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلم لیگ(ن) بھی اندرونی انتشار کا شکار ہوگئی ہے۔ سندھ حکومت کی گرتی ہوئی ساکھ کے پیچھے بھی بدعنوانی کے الزامات موجود ہیں۔ لیکن دوسری طرف تحریک انصاف کی پختونخواہ میں بارہ سالہ کارکردگی بھی انتہائی ناقص اور بدعنوانی کے سنگین الزامات سے لدی ہوئی ہے۔ اور وفاق میں پونے چار سال کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی۔ آئی ایم ایف جس کا رونا رویا جارہا ہے اس کی بنیاد بھی عمران خان کے دور اقتدار میں ہی ڈالی گئی ہے۔ عدالتوں میں جج صاحبان کی اکثریت نے بھی عمران خان کی جائز ناجائز مدد کی ہے جس کی وجہ سے وہ آج تک جیل سے باہر ہیں۔ اس کے پیچھے بھی ایک راز ہے عمران خان چھپکلی سے نہایت خوفزدہ ہوتے ہیں اور جیل چھپکلیوں سے بھری ہوئی ہیں پھر اگر رانا ثناء اللہ کا بس چلا تو جس جیل میں خان صاحب جائیں گے وہاں چھپکلیوں کی ایک بڑی کھیپ روانہ کر دی جائیگی۔
کنٹینر پر تو خان صاحب آرام سے سو جاتے ہیں چھپکلی والی چھت کے نیچے انہیں نیند نہیں آئیگی۔عمران خان اور تحریک انصاف سے یہی اپیل ہے کہ خدارا جھوٹ اور فریب کا سہارا لیکر عوام کو مزید دھوکا نہ دیں عوام پہلے ہی مہنگائی کے عذاب میں دبی ہوئی ہے۔ آپ کو بھی معلوم ہے کہ آپکی حکومت بھی مہنگائی کی عفریت کا مقابلہ نہیں کرسکتے آپ بھی اقتدار میں آکر پی ڈی ایم کی حکومت کو مورد الزام ٹھہرائیں گے۔ چلیں شہبازشریف کا مذاق اڑا لیں کہ وہ جھولی پھیلا کر سعودی عرب خیرات لینے پہنچ جاتا ہے۔ آپکو تو کوئی خیرات بھی نہیں دیگا آپکی ساکھ اور آپ کے تعلقات دنیا بھر کے طاقتور اور مالی استعداد دینے والے تمام ممالک کے ساتھ اس نہج پر ہیں کہ کوئی آپ سے بات بھی کرنے کا روادار نہیں فوج کو اپنے اتنا رسوا کیا ہے کہ موجودہ فوجی قیادت بھی آپ کے ساتھ کام کرنے کیلئے تیار نہیں۔ اقتدار کی ہوس اور اپنی انا کی تسکین کیلئے ملک کو تباہ کردیا ہے۔
٭٭٭٭