گوادر اور سیندک میں بلوچوں کی حق تلفی

0
482
پیر مکرم الحق

پیر مکرم الحق،انڈیانا
mukarampeer@gmail.com

بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا اور آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا صوبہ ہے، پاکستان کے 44% اراضی پر محیط بلوچستان کی کُل آبادی 75 لاکھ پر مشتمل ہے جو کہ پاکستان کی کل آبادی کا 5 فیصد بنتا ہے۔ بلوچستان معدنیاتی طور پر دنیا کا امیر ترین علاقہ ہے، یہاں پر تیل، قدرتی گیس، سنگ مرمر، ہیرا، سونا، چاندی، پیتل، کوئلہ اور سلیکان جیسی قیمتی دھات کا ذخیرہ موجود ہے، گوادر جیسی اہم ترین بندر گاہ (Sea Port) بھی یہیں موجود ہے۔
کئی اہم طاقتوں کی للچائی نظریں بھی بلوچستان پر مرکوز ہیں، قبائلی ثقافت ہونے کی وجہ سے سرداروں کی چپقلشیں اور اپنے قبائل کو تعلیم سے دور رکھنے کا رحجان تو اپنی جگہ ہے لیکن بد قسمتی سے فوجی حکومتوں کی مسلسل زیادتیاں جس میں بدنیتی سے زیادہ غیر سیاسی سوچ کا زیادہ عمل دخل رہا ہے، 50ءاور 60ءکی دہائی میں نوروز خان اور پسند خان کی جدوجہد کا آغاز 50ءکی وسط میں شروع ہوئی، سردار نوروز خان زرکزئی زہری قبیلے کے بزرگ تھے ،ان کے ساتھ اپنے بچوں، بھتیجوں کے علاوہ قبیلے کے ایک ہزار افراد شامل تھے، بلوچستان کے علاقہ میں پہاڑیوں کی بھول بھلیوں سے آشنا ان لوگوں کیلئے پاک فوج کے ساتھ گوریلا جنگ لڑنا مشکل نہیں تھی جب خان آف قلات نے ون یونٹ بننے کے بعد مغربی پاکستان سے علیحدگی کا اعلان کیا تو جلد ہی اسکندر مرزا نے 1958ءمیں مارشل لاءکا نفاذ کیا جسے جنرل ایوب نے جلد ہی قبضہ کر کے اور مارشل لاءکے چیف ایڈمنسٹریٹر بن گئے۔ بہرحال اسی چھینا جھپٹی میں پاک فوج نے قلات محل میں قبضہ کر کے خان قلات کو تحویل میں لے لیا، در پردہ نوروز خان کےساتھ مذاکرات کئے اور انہیں آمادہ کیا کہ وہ پہاڑوں سے اُتر آئیں ان پر سارے مقدمات ختم کر دیئے جائینگے لیکن وعدہ خلافی کر کے انہیں گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا گیا بعد میں نوروز خان کو بزرگی کی وجہ سے پھانسی نہیں دی گئی لیکن ان کے قریبی عزیز و اقارب میں شامل چار افراد کو پھانسی دیدی گئی، یہ ظلم و ستم اور وعدہ خلافیوں کا عہد ابھی یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ مختلف ادوار میں رواں دواں رہا، سردار عطاءاللہ مینگل کے صاحبزادے اسد مینگل کو بلوچستان سے کراچی راستے آتے ہوئے گرفتار کیا گیا جب انہیں ایک بریگیڈیئر کے روبرو پیش کیا گیا تو اسد مینگل نے پُرزور احتجاج کیا جس کے نتیجے میں اسد اور ان کے ایک دوست اور ہمسفر کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا ۔اس وقت جنرل ضیاءکے چیف آف آرمی کے اقدامات ہو چکے تھے جب سردار عطاءاللہ مینگل نے ذوالفقار علی بھٹو سے شدید احتجاج کیا تو بھٹو صاحب نے جنرل ٹکا خان کو بلایا اور معلوم کیا کہ یہ کیا ماجرا ہے تو جنرل ٹکا نے اندرون خانہ فوج میں تحقیقات کیں تو انہیں بتایا گیا کہ اسد مینگل مقابلے میں مارے گئے ہیں تو جنرل ٹکا نے جب ان کی لاش مانگی تو جنرل ضیاءنے انہیں کہا لاش کہیں راستہ میں دفن کر دی گئی ہے لیکن کس مقام پر یہ نہیں معلوم، ٹکا خان نے یہ رپورٹ بھٹو صاحب کو پہنچائی تو بھٹو صاحب نے کہا یہ تو سرا سر زیادتی ہے کم از کم تحقیقات تو کروائیں اور لاش کی نشاندہی تو کریں لیکن اس مسئلے پر بھی قومی سلامتی کی مہر لگا کر داخل دفتر کر دیا گیا۔ سردار عطاءاللہ مینگل نے اس سارے معاملے کی ذمہ داری بھٹو صاحب کے سر تھوپ دی کیونکہ قبائلی حساب میں قبیلے کا کوئی بھی شخص جرم کرے ذمہ داری سردار کی ہوتی ہےھر جنرل مشرف نے سردار اکبر بگٹی پر راکٹ برسا کر اس اسی سالہ بزرگ سردار کو قتل کروا کر بلوچوں کے رستے زخموں پر ایک اور ضرب کاری لگا کر ایک ظلم و بربریت کی تاریخ رقم کر دی۔
گوادر جیسے بدحال علاقے میں جب بندر گارہ کی تعمیر ہوئی تو بلوچوں کی آنکھوں میں بہتر مستقبل کے خواب چمکنے لگے لیکن وہاں بھی پنجاب ہزارہ اور پختونخواہ کے لوگوں کو دھڑا دھڑ ملازمتیں ملیں حد تو یہ ہوئی کہ پنجاب کے لوگوں کو جھوٹے ڈومیسائل جاری کرا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ یہ بھی گوادر کے رہائشی ہیں جس طرح آج کل تھر کے مقامی لوگوں کو محروم رکھا جا رہا ہے جنرل قادر بلوچ بلوچستان کے ملازئی قبیلے کے وہ خوش قسمت انسان ہیں جنہیں پہلا بلوچ یا سندھی جنرل بننے کی سعادت حاصل ہے ۔اس سے پہلے نہ کوئی سندھی نہ بلوچ آزدی سے لے کر آج تک پاکستان آرمی میں جنرل کے عہدے تک پہنچ پائے تھے، جنرل قادر بلوچ کور کمانڈر بلوچستان تھے جن دنوں مشرف صدر تھے، جنرل بلوچ نے ایک سرکاری اجلاس میں گوادر اور دوسرے وفاقی اداروں میں بلوچوں کو نظر انداز کرنے کی بات کی تو جنرل ندیم تاج جو ان دنوں آئی آئی یا ملٹری انتیلی جنس کے سربراہ تھے ،انہوں نے مشرف سے شکایت کی کہ جنرل بلوچ تو قوم پرست بلوچوں کی سوچ رکھتے ہیں۔ انہیں کور کمانڈر کے عہدہ سے جلد ہی فارغ کر دیا گیا۔
ضلع چاغی بلوچستان میں 1978ءمیں سیندک کے مقام پر سونے، چاندی اور پیتل کے ذخائر ظاہر ہوئے، چاغی ضلع اس سے پہلے بلوچستان کے غریب ترین ضلعوں میں شامل رہا لیکن سونے اور چاندی کے ذخائر کے انکشاف ایک بار پھر اس خوش فہمی کا شکار ہوئے کہ شاید اب ان کی قسمت چمک اٹھے گی یہ ٹھیکہ بھی ایک چینی کمپنی کے سپرد کر دیا گیا، اس سونے کی کان میں پچپن ارب ڈالر کے سونے کے ذخائر کا ابتدائی تخمینہ ہے، آس پاس کے بلوچ بچے آج بھی کھلے آسمان تلے سبق پڑھتے ہیں ،آس پاس کوئی ہسپتال نہیں حد یہ ہے کہ پینے کاپانی تک مہیا نہیں ہو سکا تو پھر بلوچ باغی کیوں نہیں ہوگا؟

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here