پیر مکرم الحق،انڈیانا
mukarampeer@gmail.com
اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے آئین کی طاقت کو پارلیمنٹ کے پلڑے میں ڈال دیا گیا اور اس طرح صدر کے پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کے اختیارات ختم کر دیئے گئے ہیں، اب تک 1973ءکے آئین میں 34 تبدیلیاں لائی گئیں ہیں جس میں سے 10 ترامیم تو پارلیمنٹ کے صحیح طریقہ کار کو اختیار کر کے پاس کر کے اختیار کیا گیا لیکن 24 تبدیلیاں یا ترامیم کے ذریعے لائی گئی ہیں جس میں جنرل ضیاءاور جنرل مشرف کے ا دوار میں آئین پر شب خون مار کر آئین کی شکل کو مسخ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ انتہا تو یہ تھی کہ آئین قتل جمہوریت جنرل ضیاءکا نام تک شامل کر دیا گیا تھا ،اٹھارہویں ترمیم نے اس غلیظ نام کو منہا کر دیا لیکن اس ترمیم کے نتیجے میں جرنیلوں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ اب پارلیمنٹ اپنی پسند کی لانے کیلئے اپنی خفیہ ایجنسیوں کو ملا کر الیکٹیبل کی ایک فوج جو کہ جس طرح پچھلے کالم میں ذکر کر چکا ہوں، تیار کر لی ہے یہ لوگ پیشہ ور سیاستدان ہیں ان کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا ہے ۔اپنے مالکوں کی مرضی سے چلنے والے فقیر ہوتے ہیں ،اس لئے ان کی وفاداریاں کسی سیاسی جماعت کی بجائے آبپارہ، راولپنڈی والوں سے ہوتی ہے، ان کرائے کے ٹٹوﺅں کو جہاں جس سمت میں جانے کا حکم ہو چلے جاتے ہیں۔ یہ جانے پہچانے چہرے کوئی چھپے ہوئے لوگوں کے نہیں بلکہ باری باری یہ اپنی پارٹیاں بدلتے ہیں اور دھڑلے سے کل تک جس سیاسی جماعت اور سربراہ کی تعریفیں کرتے تھکتے نہیں تھے کچھ ہی دنوں میں ان کی مخالف جماعت کے سٹیج سے اپنی پرانی پارٹی رہنماﺅں کو بُرا بھلا کہتے ہوئے انہیں نہ کوئی قباحت ہوتی ہے نہ جھجھک!! یہ بے ضمیر سیاستدانوں (نام نہاد) کو عوام ایک عرصے سے جانتی ہے لیکن تیس سال کی مارشل لاﺅں نے عوام کے حوصلے پست کر دیئے ہیں فوجی حکومت براہ راست ہو یا کسی کٹھ پتلی سیاسی مہرے کے معرفت عوام کی رسائی نہیں ہوتی۔ سیاسی منتخب حکومتوں کی بھی حالات ابھی کوئی اچھے نہیں لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ رسائی کا امکان بن ہی جاتا ہے۔ اٹھارہویں حکومت میں جو 15 وزارتوں کو ختم یا تقسیم کرکے صوبوں کے حوالے کیا گیا تھا وہ بھیا نک لُولے لنگڑے طریقہ سے کیونکہ اسلام آباد کی نوکر شاہی کسی طرح سے اپنے اختیارات کو کم کرنے کیلئے تیار نہیں تھی اس لئے وزارتوں کے کمزور اور مالی مشکلات میں گھرے ہوئے محکمہ جات تو صوبوں کے سر پر ڈال دیئے گئے لیکن مضبوط اور اہم محکمے رمکز میں ہی رہ گئے۔ اس کے اوپر سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ ان ڈیپارٹمنٹس کو چلانے کیلئے فنڈز کے حصول میں بھی چھوٹے صوبوں کو بہت تنگ کیا گیا ہے ،اس مد میں اٹھارہویں ترمیم کا نفاذ اس لئے بھی ادھورہ رہ گیا کہ ان صوبوں میں چیف سیکرٹری کا تقرر مرکز کرتا ہے اور جو چیف سیکرٹری مرکزی حکومت کے رحم وکرم پر نوکری کرتا ہے وہ صوبے کے منتخب لوگوں کی پرواہ نہیں کرتا ،نہ صرف وہ بلکہ اب تو انسپکٹر جنرل آئی جی پولیس بھی مرکز سے آتا ہے اور وہ منتخب وزیراعلیٰ کی ناراضگی اور یا حکم عدولی کے ذریعے مرکز میں اپنی نوکری پکی کرتا ہے ۔اس سے پہلے کہ میں مشرقی پاکستان یا 1971ءکے سقوط ڈھاکہ کا ذکر کروں اب دنیا بدل چکی ہے ا ب جو بنگالیوں کا حشر ہماری مسلمان فوج نے کیا تھا نہ وہ اب سندھ میں ممکن ہے نہ بلوچستان میں اور پختون خواہ والے بھی اب باغی ہوتے جا رہے ہیں۔ اب یہ ذمہ داری بڑے بھائی پنجاب کے منتخب نمائندوں پر ہے کہ وہ آئین میں مزید ترمیم کر کے پاکستان میں رہتے ہوئے صوبوں کو خود مختاری دیں جس کا ذکر ہمارے بڑے بھائی اعتزاز احسن نے بڑی جوانمردی سے دیا ہے ،صوبوں میں چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس خالصتاً صوبوں کا اختیار ہونا چاہئے اور اس صوبے کے منتخب نمائندہ کی ایک سلیکٹ کمیٹی کے ذریعے ہونا چاہئے جس میں صوبہ کی تمام سیاسی جماعتیں جن کے نمائندگان اس صوبائی اسمبلی میں منتخب ہوئے ہیں سب کا حصہ بقدر ہونا چاہیے ویسے بھی مرکز ہو یا صوبائی سطح پر اہم تقرریاں صوبائی نمائندگان یا مرکز میں سینیٹ ارکان پر مشتمل کمیٹیز کے ذریعے ہونی چاہئیں، مرکزی حکومت چاہے کسی پارٹی کی ہو صوبوں کو اپنا مزار نہیں سمجھنا چاہئے۔ صوبوں کو صحیح معنوں میں اختیارات کی منتقلی کا حق حاصل ہونا چاہیے اور صوبوں کے وسائل میں سے ایک طے شدہ حصہ انہیں ملنا چاہئے، ان کے وسائل کو مال غنیمت سمجھ کر کھانے کی عادت مرکز کو چھوڑنی پڑے گی۔
٭٭٭