طاہر حنفی
کسی بھی دارالحکومت میں رہنے والے باسی اس لئے اپنے آپ کو خوش قسمت تصور کرتے ہیں کہ انہیں آسائش زندگی کی تمام تر سہولیات قدم بہ قدم دستیاب ہوتی ہیں لیکن اسلام آباد میں رہنے والے لاکھوں افراد اپنے آپ کو خوش قسمت افراد میں اس لیے شمار نہیں کر پا رہے کہ انہیں ہر حکومت اور برسر اقتدار پارٹی ووٹ ہتھیانے کی منظم مہم میں ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر کے چھوڑ دیتی ہے۔ یہ لاکھوں افراد اسلام آباد کے پانچ کلو میٹر کے پوش علاقے میں نہیں رہتے کیونکہ زیرو پوائنٹ سے مارگلہ روڈ اور شاہراہ دستور سے ناظم الدین روڈ پر بلند و بالا عمارت کی موجودگی اسلام آباد کی شناخت کا عالمی نشان ہے ا ور بس حکمران طبقے کیلئے یہی فخر کافی ہے کہ اسلام آباد دنیا کے چند جدید شہروں میں گنا جاتا ہے ،یہ الگ بات ہے کہ اسی شہر کے ایک پوش سیکٹر میں اہل علاقہ ا یک منتخب وزیر کے ہمسائے میں رہنے کے باوجود ٹیوب ویل کی سہولت سے استفادہ نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ مقامی حکومت کے پاس فنڈز نہیں ہیں ،یہ بھی ممکنہ ہے کہ وزیر موصوف جنہیں دوسری بار اس علاقے سے رکن منتخب کیا گیا ہے شرمندگی کے مارے اس موضوع پر لب کشائی سے گریز کرتے ہوں کیونکہ ان کی 2018ءکے انتخاب سے پہلے کی ایک ویڈیو میں ان کے بلند و بانگ دعوے محض ریت کا ڈھیر ثابت ہوئے ان کا فرمان تھا ”یہ ویڈیو سنبھال رکھنا اگر ایک سال میں مسئلے حل نہ کر پایا تو استعفے دے کر گھر چلا جاﺅنگا“۔ اپنے گھر سے چند گلیاں چھوڑ کر ٹیوب ویل کا مسئلہ حل نہ کر پانے والے اس وزیر کی مبینہ بے بسی کا سن کر میں دارالحکومت کے غیر خوش قسمت باسی ہونے کا دکھ بھول گیا ہوں یہ بھی کوئی دُکھ ہے بھلا کہ اسی شریف آدمی کے حلقے میں کشمیر ہائی وے سے گزرتے ہوئے زیر تعمیر میٹرو اسٹیشن کی دیواریں بار بار سوال پوچھتی ہیں کہ زیرو پوائنٹ سے روات تک سگنل فری کرنے کیلئے منصوبے کے مختص فنڈ اگر این ایچ اے کو دے کر نئے ایئرپورٹ تک میٹرو بنانے کیلئے دے دیتے تھے تو ابھی تک یہ منصوبہ کیوں کھٹائی کا شکار ہے، ایک طرف کورال چوک سے لے کر روات تک ایکسپریس وے منصوبے کو سیاسی مصلحتوں کے حوالے کر دیا گیا تو دوسری طرف میٹرو منصوبہ بھی ادھورا چھوڑ دیا گیا۔
یہ بھی دکھ کیا کم ہے کہ شہر کی میونسپل کارپوریشن اپنے سیاسی سرپرستوں کی نا اہلی کے سبب اور قواعد و ضوابط سے بس حقہ واقفیت نہ رکھنے کے باعث اپنے منتخب ارکان کے مشاہروں کیلئے بھی قوانین نہ بنا پائی تو دوسری طرف دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے پر عارضی حکمرانی نے منتخب میئر کو ”بڑے گھر“ کا ایک چھوٹا ”کاما“ بنا دیا۔ نتیجہ کیا نکلتا کہ غریب شہری رُل کر رہ گئے، سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ جن افراد کے ہاتھوں میں اب شہر کی تقدیر دےدی گئی، انہوں نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھو کر صرف اور صرف اپنی نظر اپنے حلقے پر مرکوز کر دی لیکن اسی شہر کے دو اور منتخب ارکان نے تو قسم کھا رکھی ہے کہ وہ صرف ناگہانی طور پر اپنے علاقے میں ووٹروں کی خدمت کیا کرینگے اگر کسی کو شک ہو تو وہ قومی اسمبلی کے اسلام آباد کے مضافات سے منتخب ارکان کی سرگرمی دیکھ لیں۔ ہمارے عظیم دانشور وزیر محترم کا ذکر تو آپ نے سن لیا لیکن دوسرے منتخب رکن نجی محفلوں میں اپنی سرکاری کم مائیگی کا اظہار کرتے ہیں اور جو احباب شہر کی مقامی سیاست کے نشیب و فراز سے آگاہ ہیں ان کا کہنا ہے کہ جب بھی مقامی انتخابات یا بڑے انتخابات کا ڈولڈالا گیا تو حکمران جماعت کو اسلام آباد کے تینوں حلقوں سے سبکی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اسلام آباد کے مضافاتی علاقوں کے شہری اس حد تک عاجز آگئے ہیں کہ ا گر مستقبل قریب میں ایکسپریس وے کو روات تک سگنل فری کرنے کے منصوبے کو شروع نہ کیا گیا تو وہ شہری حکومت اور ترقیاتی ادارے کےخلاف عدالتوں تک بھی جا سکتے ہیں۔ سیاست دانوں کیلئے وعدے کرنا آسان ہوتا ہے لیکن جب عوامی فلاح و بہبود کیلئے منصوبوں کو عملی شکل دینے کا وقت آتا ہے تو سیاسی دباﺅ کے نام پر ان تمام سرمایہ کار دوستوں کو نوازنے کیلئے سوچ بچار کیا جاتا ہے جن کی نظر کرم سے وہ ان مناسب پر پہنچ پائے ہیں۔ اسلام آباد کے مضافات کے لاکھوں افراد اپنے نمائندوں کی نظر کرم کے منتظر ہیں جنہیں ہر بار مختلف سرکاری مدارج میں منصوبوں کی فائلیں پھنسی ہونے کا لارا لگا کر ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا جاتا ہے، کیا نئے ایئرپورٹ تک میٹرو منصوبہ کبھی مکمل ہو پائے گا یا کورال چوک سے روات تک سگنل فری کاریڈور اس پر بے ہنگم ٹریفک کے سبب لوگوں کی ہیجان انگیز ادیوں کو ختم کرنے کیلئے بنایا جا سکے گا۔ سرکار کی مرضی ہو تو ٹرکوں سے روات تا فیض آباد 48 گھنٹوں کیلئے بھی پاک ہو جاتا ہے اور نظر انداز کرنا ہو تو شام کو 5 سے 7 بجے تک بھی ہیوی ٹریفک معمول کے مطابق جاری رہتی ہے۔ دکھ تو ان سے پوچھیں جو اسلام آباد سے روات تک اس عذاب کی وجہ سے دونوں اطراف میں تین تین گھنٹے تک خوار ہونے کے بعد گھروں کو لوٹتے ہیں یا پھر اپنے دفاتر تک!