ہمارا مستقبل؟

0
135
طاہر حنفی
طاہر حنفی

طاہر حنفی
کبھی کبھی مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم کو بحیثیت قوم ایک نئی جنگ میں جھونک دیا گیا ہے اور شاید یہ فقط جنریشن وارمیں نئے رحجانات کی عکاس ہے۔ ”متبادل منظر کشی“ کے ہتھیار سے قوم کو ایک نئے ہیجان میں مبتلا کر دیا گیا ہے۔ 2020ءمیں ایٹمی صلاحیت رکھنے و الی ریاست کے مکینوں کو نئی الجھنوں میں ڈال دیا گیا ہے ،ٹیلی ویژن کی جھلملاتی ہوئی سکرینوں پر نظر پڑے تو ایسا لگتا ہے کہ چھوٹے چھوٹے مفادات اتنے غالب آگئے کہ اگر ان کو ریلیف نہیں ملا تو قیامت آجائےگی۔ اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھے ہوئے لوگوں کی سب سے بڑی کامیابی یہی ہوتی ہے کہ ہماری چودھراہٹ رہے باقی رہے عوام تو ان کا کیا ہے ،ان کو وقت آنے پر چکنی چپڑی باتوں سے بہلایا جا سکتا ہے۔ عوام کو درپیش مسائل کو ختم کرنے کی بجائے جان بوجھ کر نان ایشوز سامنے لا کر عوام کو ”بریکنگ نیوز“ کی لال، نیلی سکرینوں میں اُلجھا کر اپنا الّو سیدھا کرنے کی روایات کو زندہ تابندہ بنا دیا گیا ہے۔ جب کبھی عوام کو مہنگائی کی نئی تلوار سے ذبح کرنا مقصود ہو تو جان بوجھ کر سیاسی منظر نامے پر نئے شگوفے چھوڑے جاتے ہیں، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عوام کو روز ایک نیا عذاب سہنا پڑ جاتا ہے۔ وزیراعظم نے ملائیشیا کے رہنما مہاتیر محمد کی مافیا تھیوری سے اتفاق کیا ہے کہ ”انہیں“ بھی مافیا کیلئے کئے گئے ”کارناموں“ کے سبب مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان کے موجودہ مسائل کم ہونے کی بجائے روز بڑھ رہے ہیں۔ آج کل اپنی منجی تلے ڈانگ وی پھیرو، کی بازگشت مختلف محفلوں میں سنائی دے رہی ہے جس کا خلاصہ یہی ہے کہ اقتدار میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے گرد جو مافیاز ہیں ان سے چھٹکارا حاصل کیا جائے لیکن شاید یہ کام اس لئے مشکل نظر آتا ہے کہ اگر ان کو روکا گیا تو آنے والے کل میں ان کی شاہ خرچیوں کا بوجھ کون اٹھائے گا؟ سیاست میں سرمایہ کاری، ایک ہنر سمجھا جاتا ہے اور وہی اچھا سرمایہ کار سمجھا جاتا ہے جو نبض شناش ہو، سرمایہ کار سیاسی نقطہ¿ نظر سے نہیں ذات کے حساب سے لوگوں کو رجھاتا ہے کیونکہ پاکستانی سیاست میں نظریاتی کارکن صرف زبانی جمع خرچ میں پائے جاتے ہیں۔ قومی مفاد کی خاطر سیاسی گروہ تبدیل کرنے والے عناصر کے بارے میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ وہ اپنی سیاسی سمجھ بوجھ کے مطابق صحیح وقت پر درست فیصلہ کرنے کی حکمت عملی سے مالا مال ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ عمران حکومت کے بارے میں یہ تاثر عام طور پر پایا جاتا ہے کہ صرف علی بابا بدلا ہے ،باقی ………… رہے نام اللہ کا، یہ سب کچھ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سنہری الفاظ سے لکھا ہوا ہے۔ اگر کچھ بدلا ہے 2020ءمیں پاکستان کے غریب عوام کیلئے تو وہ یہی ہے کہ مہنگائی کے بوجھ تلے دبی عوام کو آٹے کے بحران کی بھینٹ چڑھا دیا گیاہے، ابھی اس ظلم کی سیاہی خشک بھی نہیں ہوئی تھی کہ چینی کے بحران اور سوئی گیس کی قیمتوں میں ہو شربا اضافے کی خوشخبری غریب عوام کے دامن میں ڈال دی گئی ہے، متبادل منظر کشی کے فارمولے کو اپناتے ہوئے اس بحران میں بھی صاحبان اقتدار عوام کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنا نہیں بھولے، کہیں نومبر دسمبر میں زیادہ روٹیاں کھانے کو بحران سے منسوب کیا جاتا ہے تو کہیں روٹی کے کم وزن کی نوید دے کر قیمتیں نہ بڑھانے کا مشورہ اس دن کا سب سے مشہور لطیفہ قرار پاتا ہے، کبھی ارباب اقتدار نے یہ سوچا کہ 20 سال سے 35 سال تک کے نوجوان پاکستان کی 22 کروڑ آبادی کا نصف سے زائد ہیں ان کیلئے جاب مارکیٹ پیدا کرنے کیلئے کیا حکمت عملی اپنائی جائے؟ تعلیمی درسگاہوں سے ڈگری حاصل کرنے والے جوان شہری ایک نئے دوراہے پر کھڑے ہیں کہ مارکیٹ میں نوکری نہیں ہے لیکن پیسوں کے ساتھ تربیت کے نام پر ان سے کام کرایا جاتا ہے اور ہر چھ ماہ بعد اسی طرح نئے رضا کاروں کی ایک کھیپ کو پرائیویٹ اداروں میں مستقل نوکری کے سنہرے خواب دکھا کر بھرتی کیا جاتا ہے اور پرانے رضا کار فارغ کر دیئے جاتے ہیں۔
اس صورتحال میں سرکاری نوکریوں کے بارے میں یہ کہنا کہ حکومت کیلئے ایسا کرنا ممکن نہیں عوام کو مایوسی کے اندھیرے میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔ ہماری سیاسی جماعتوں میں تو شاید اب ایشوز پر ان ہاﺅس بحث کا رحجان ختم ہو چکا ہے اور وہاں سیاسی کارکن کی شناخت کا پیمانہ بھی اس کی دولت ہو گیا ہے، ابھی بھی وقت ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں اپنے کارکنوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے وطن عزیز کو درپیش مسائل کے حل کیلئے سنجیدہ سوچ و بچار پر غور کریںکیونکہ ہم سب کو اب تک مسائل کا اندازہ بخوبی ہو چکا ہے لیکن ان کے حل کیلئے کوئی سنجیدہ دکھائی نہیں دیتا، ہم حل تلاش کرنا نہیں چاہتے۔
سیاسی جماعتوں کو ایسے سیل تشکیل کرنے کی ضرورت ہے جو تھنک ٹینک کے طور پر کام کریں اور اگلے بیس برس میں پاکستان کے سامنے آنے والے مسائل اور اس کا حل بھی سوچیں لیکن یہ سب کچھ اس وقت ممکن ہے کہ جب ہمارے سیاسی زعماء”نمبر سکورنگ، کے بخار سے صحت یاب ہو جائیں اور قوم کے لخت لف حلقوں کےساتھ ایک سنجیدہ مکالمے کی روایت کا آغاز کریں۔ اپنے نقطہ نظر سے ہٹ کر کوئی بات سن لینا بھی اب غنیمت سمجھا جاتا ہے جب تک دانش و فہم کی حوصلہ افزائی نہیں کی جائےگی ،اس وقت تک ہم بحیثیت قوم ایڈہاک ازم کا شکار رہیں گے اور ہمارا مستقبل……..؟

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here