کامل احمر
آج کے پاکستان میں کوئی ایسی بات نہیں ہو رہی جو عوام کی محرومیوں کا سد باب کر سکے۔ عمران خان کے مخالفین، آٹا، چینی اور گیس کی کمیابی کا رونا رو رہے ہیں اور دوسری طرف عرف عام میں آج کے مقبول ڈرامہ سیریل ”میرے پاس تم ہو“ کا ٹاپک دل و دماغ پر آکسیجن اور خون کی طرح سرایت کر چکا ہے۔ میڈیا کے پاس آج کل عوام کو کھینچنے کیلئے کچھ نہیں تو اس ڈرامے اور اس سے جُڑے کرداروں، لکھاری کو ہائپ کی شکل میں پیش کر رہا ہے۔ حد یہ ہے کہ ایک کالمسٹ کی حیثیت سے ہم بھی اس کی زد میں آچکے ہیں تو سوچا اس کا تجربہ کر دیا جائے، ہمارے ملک میں بلکہ اسلامی دنیا میں کہانی اور اس سے جُڑے ڈرامے بغداد (عراق) میں بیان کی گئی شہرزادوں کی 1001 کہانیوں جوکہ انگریزی میں 1001 ARABIAN NIGHTS کی مرہون منت ہیں اور اس کے بعد آنے والے ڈرامے، اوپیرہ، فلمیں اس کی بنیادوں پر کھڑے ہیں اور رہتی دنیا تک رہیں گے چاہے وہ شیکسپیئر کی رومیو جیولیٹ ہو یا وارث شاہ کی ہیر اور مرکزی کردار تین ہونگے یعنی ہیرو، ہیروئن اور ویمپ یا ولن، ویمپ اور ولن کی شکل مکار، وزیر، نالائق شہزادہ یا سوتیلی ماں اور دوسرے ضمنی کردار چاٹ مصالحے کے مانند کوئی نئی بات نہیں۔ شراب وہی بس بوتلیں نئی ہیں اور ان میں سو فیصدی الکوحل ہے یعنی بالغوں کیلئے عبدالرحمن قمر کے جو دو ڈرامے ہم نے دیکھے ہیں اور پسند کئے ہیں صدقے، تمہارے اور آج کا جاری ڈرامہ میرے پاس تم ہو، کی کہانیوں کا تانا بانا بھی الف لیلیٰ ہزار داستان سے ہی لیا گیا ہے اور ڈائیلاگ میں فلسفہ کی آمیزش کر کے نیا پن دیا گیا ہے۔ یہ ڈرامہ سیریل میرے پاس تم ہو، مقبولیت اور پسندیدگی کی بے حد اونچی سیڑھی پر جا پہنچا ہے کہ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فیصلہ کیا گیاہے کہ اسے فلم کی شکل میں رواں ہفتے سینما ہال میں دکھایا جائے ،ARY کے مالکان پکے تاجر ہیں ،وہ ہر کام کو سونے کی تجارت سے موازنہ کر کے چلتے ہیں کہ لوہا گرم ہو تو ہی ہتھوڑا چلاﺅ۔
میڈیا کے کئی چینلز پر اس سیریل اور کرداروں پر ٹاک شو کئے جا رہے ہیں ،ایک چینل پر مفتی طارق کو لا کر تنازعہ کھڑا کیا گیا پہلے اس ڈرامے کا ایک ڈائیلاگ ”دو ٹکے کی عورت“ کے چرچے ہوئے اور اب اس ڈائیلاگ کو لے کر مذہبی بحث چھڑ گئی جس کی وضاحت کیلئے مفتی طارق کو بلایا گیا ،ڈائیلاگ کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کئی مثالیں دیں کہ جس طرح اللہ کسی کی شراکت پسند نہیں کرتا، مرد بھی بیوی میں کسی کی شراکت پسند نہیں کرتا، ڈائیلاگ تھا، مرد کو اپنی فطرت میں پیدا کیا گیا ہے، دوسری جانب عورت اپنی سوکن کو بحالت مجبوری برداشت کر لیتی ہے۔اس کا حوالہ انہوں نے حضرت عائشہ سے دیا، ان کا یہ کہنا درست تھا کہ آدمی نے کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ وہ اللہ کے برابر ہے یہ ڈرامہ صرف بالغان کیلئے ہے۔
یہ کون لوگ ہیں جو بے تُکی باتیں کرتے ہیں ان کا کہنا تھا کہ عوام کیلئے اس میں سبق ہے ہمارا کہنا ہے کہ عوام کو راغب کیا جا رہا ہے کہ ایک بیوی کا شادی شدہ ہوتے ہوئے دوسرے مرد کے پاس چلے جانا بھی معاشرے کا حصہ ہے اور مردوں یا عورتوں کو اس سے ترغیب ملتی ہے جیسا کہ ڈرامے میں دیکھایا گیا کہ مہوش اپنے شوہر کو چھوڑ کر دوسرے مرد کےساتھ چلی جاتی ہے۔
عبدالرحمن قمر کا کہنا ہے کہ اسکرپٹ 5 سال سے سنبھال کر رکھا تھا کہ ہمایوں سعید اور عدنان کے بغیر ڈرامہ نہیں بنے گا کیا اس بات پر یقین کر لیا جائے ہمارا کہنا ہے کہ 5 سال پہلے معاشرہ اتنا آزاد نہیں تھا اور ہم ٹی وی اور اے آر وائی جو مادر پادر آزاد ہو کر من مانی کر رہے ہیں۔ مصنف اپنے ڈراموں کیلئے کہتا ہے کہ یہ حقیقت پر مبنی ہے۔ صدقے تمہارے، ایک صاف ستھرا، لیلیٰ مجنوں کے انداز میں تھا جسے کرداروں نے زندہ کر دیا تھا۔ اسکرین پلے اور ڈائریکشن کا بھی ہاتھ تھا۔ میرے پاس تم ہو، بھی حقیقت تو ہے، اس سے پہلے 60 کی دہائی میں ایک نامی گرامی شاعرمصطفی زیدی جو ڈپٹی کمشنر تھے اور ایک شادی شدہ عورت شہناز زیدی کی کہانی ہے جس میں عورت اپنے شوہر کو دھوکہ دے کر مصطفی زیدی سے جڑ گئی تھی اور پھر دونوں نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ زہر پی کر خود کشی کر لینگے۔ نتیجہ میں زیدی کی موت واقع ہوئی لیکن شہناز بچ گئی، شیکسپیئر کے رومیو جیولٹ کا سا اختتام تھا لیکن الزام شہناز پر آیا، قتل کا اور مقدمہ چلا، جنگ اخبار نے کورٹ میں چلنے والے اس مقدمے کی روئیداد من طعن چھاپ کر اپنا گرویدہ بنا لیا۔ 15 سال کی عمر سے زیادہ کے لوگ اخبار کو پڑھ پڑھ کر تفریح لیتے رہے، اس زمانے میں اخبار ہی ذریعہ تھا، تفریح اور خبریں دینے کا ریڈیو صرف خبروں کیلئے تھا۔
پاکستان میں فلم انڈسٹری قائم تھی اور اس پر ایک سنسر بورڈ قائم تھا ،بہت سی فلموں میں بے حیائی کے ڈائیلاگ، ڈانس اور ہیرو کا ہیروئن سے بچے کی طرح چمٹنے کے مناظر کو کاٹ دیا جاتا تھا۔ معاشرے میں کب بے حیائی اور محبوب کی داستانیں نہ تھیں حضرت لوطؑ کے زمانے سے اب تک معاشرہ ویسا ہی ہے۔ نیکی بدی ساتھ چل رہی ہے۔ اچھائی بُرائی ساتھ ساتھ ہے۔ پہلے ڈاکہ زنی اور ڈاکوﺅں کو بُرا کہاجاتا تھا اور آج ایسا نہیں ہے چور اور ڈاکومعاشرے میں شرفاءکے ساتھ قدم ملا کر چل رہے ہیں، بڑی شان سے، اسلامی جمہوریہ ہونے کے ناطے حکومت کو پہلے کی طرح کا سنسر بورڈ بنانا چا ہئے جو معاشرے میں پھیلی برائیوں کو اُجاگر نہ کرے، ڈراموں کی شکل میں جس سے آنے والی نسلوں کو اچھے بُرے میں تمیز کرنا مشکل ہو، ہم یہ نہیں کہتے کہ ایسا نہیں ہوتا جو ڈراموں میں دکھایا جا رہا ہے لیکن اس سے ہماری نسلوں کو کیا مل رہا ہے، یہ ڈرامے متوسط طبقے میں زرق برق لباس ، مہندی اور شادی کی رسموں کو بڑھا چڑھا کر بتا کر محرومی پھیلا رہے ہیں یاد دلاتے چلیں اس طرح کی ایک کہانی پر 1944ءمیں ایک فلم بنی تھی۔ ”رتن“ اس کے نتیجہ میں اپنے دل کے ہاتھوں مجبور لڑکیاں گھروں سے اپنے عاشقوں کےساتھ فرار ہو گئی تھیں۔