طاہر حنفی
پارلیمنٹ ہاﺅس میں سرگوشیاں چہ میگوئیوں میں تبدیل ہونے لگی ہیں اور آنے والے دنوں میں ملکی سیاست کیا رخ اختیار کرنے لگی ہے اسکا اندازہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی ایک بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ نون کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں بعض ارکان نے HAWKSبن کر اس فیصلے کی مخالفت کی جس کے مطابق کل صبح چھ پارلیمنٹرین جس میں پی اے سی کے نو منتخب چیئر مین رانا تنویر بھی شامل ہیں پارٹی کے ایک ” نا اہل ” بڑے اور دوسرے”اپوزیشن لیڈر” کی طلبی پر لندن جا رہے ہیں۔مسلم لیگی ارکان پارلیمنٹ کا موقف یہ تھا کہ ہمیں آپس میں مشورہ کر کے مقامی حالات کے مطابق فیصلے کرنے چاہئیں اور یہ تاثر زائل ہو جانا چاہیئے کہ ہم اتنے نکمے اور نا اہل ہیں کہ ہمیں اب بھی فیصلوں کیلئے لندن کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔پارٹی کے چھ اہم لیڈروں کی پارلیمنٹ اور اسکے باہر ہونے والے سنجیدہ سیاسی سرگرمیوں سے غیر متعلق ہو کر لندن روا نگی ایک نئی سیاسی محاذ آرائی کی جانب اشارہ کر رہی ہے جسکا مظاہرہ آج شام لندن میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی پریس کانفرنس میں بھی ہوا۔پارلیمنٹ ہاﺅس کی راہداریوں میں واقفان حال چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشن کے ارکان کے معاملے پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ڈیڈ لاک کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کو بھی ” نئے سیاسی کھیل” کی شروعات سے تعبیر کر رہے ہیں۔ایک ایسے مرحلے پر جب پارلیمنٹ اہم موضوعات پر قانون سازی کیلئے کھلے اور خفیہ مذاکرات کے لیے کوشاں ہے وہاں اپوزیشن کی صفوں میں یہ بات زیر بحث ہے کہ کیا صرف ایک ترمیم پر ہی اکتفا کیا جائے یا اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض ایسی ترمیمات کیلئے بھی ایک مشترکہ لائحہ عمل بروئے کار لایا جائے جس پر پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں کے رہنما قومی اسمبلی اور نیٹ سے باہر عوامی اجتماعات میں اظہار خیال کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں تاکہ عوام کو جھوٹ سچ بول کر اپنی بے گناہی کا یقین دلایا جا سکے لیکن بد قسمتی سے جب معاملہ پارلیمنٹ میں آتا ہے تو بطور خاص پارلیمانی کمیٹیوں کے اجلاس میں ان تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کی طرف سے ” اتنی سنجیدگی ” بظاہر دیکھنے میں نہیں آتا جو اس موضوع کا تقاضہ ہے شاید اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ فیصلے باہر ہوتے ہیں لیکن جب پارلیمانی سیکرٹری میں ان کے مطابق قانون سازی کا مرحلہ آتا ہے تو معاملات سست روی کا شکار ہوتے ہیں اور بعض اوقات جلد سازی میں پارٹی کے بڑوں کو خوش کرنے کے لیے ہمارے” ذہین ارکان اسمبلی” یا تو اجلاس سے غیر حاضر ہو جاتے ہیں یا پھر جلدی جلدی میں قانون سازی کی تجاویز کو پر کھ نہیں پاتے ،اب وقت آگیا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی ارکان انتہائی سنجیدگی سے قانون سازی پر توجہ دیں کیونکہ صرف وہ ہی وہ ” قوت” ہیں جو قانون اور ضوابط کو تبدیل کر سکتے ہیں لہذا اس مرحلے پر کوئی بھی کوتاہی ان کو اگلے برسوں میں اپنی قوانین کے ہاتھوں کس انداز میں ہینڈل کرے گی۔اس کا اندازہ تو آج کل مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماﺅں کی طرف سے کف افسوس ملنے کے اعلانات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جیسا کہ پچھلے کالم میں سیاسی ماحول کو ٹھنڈا رکھنے کیلئے وزیراعظم عمران خان کو یہ تجویز دی گئی تھی کہ وہ خوشگوار سیاسی تعلقات کی بحالی کے لیے اپنے منتخب ارکان کو فرنٹ فٹ پر کھلائیں تو لگتا ہیکہ بات پہنچی بھی اور شاید عمل بھی ہورہا ہے قارئین کرام فواد چودھری کی گزشتہ دودنوںکی ”مصالحانہ ”گفتگو اور نرم لہجہ شاید اس کی بہت بڑی عکاس ہے لیکن برحال آج قومی اسمبلی کے اجلاس میں ہنگامی آرائی نے ایک بارپھر ایوان کے باہر کے تلخ اور نرم ماحول کو اسمبلی کے فلور پر لا کہ یہ عندیہ دیا ہے کہ کھیل کسی اور میدان میں کھیلا جارہاہے اور تالیاں کسی اور میدان میں بج رہی ہیں۔
٭٭٭