سردار محمد نصراللہ
قارئین وطن !آج 16دسمبر ہے ، پاکستان کی تاریخ میں یہ مہینہ قیامت صغریٰ سے کم نہیں ۔ کہ اس مہینہ میں دو اتنے بڑے حادثے ہوئے کہ جو ذہنوں سے کبھی معدوم نہیں ہوں گے ۔ ایک48سال پہلے میرا ملک دو لخت کیاگیا اور میرے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش میں تبدیل کردیا گیا اور یہ زخم پاکستان بنانے والوں کی اولاد کے اندر پکتا رہے گا جب تک وہ نسل زندہ ہے ۔ اور دوسراظلم16دسمبر آرمی پبلک اسکول کا اندوہناک حادثہ جس میں معصوم بچوں اور اساتذہ کو ظالموں نے لقمہ اجل بنا دیا ۔ ابھی ان دو حادثوں سے جانبر نہ ہوئے تھے کہ گیارہ دسمبر کو وکلاءبرادری میں چھپی کا لی بھیڑوں نے انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر حملہ کرکے دسمبر میں ہونے والے ان دو حادثوں میں ایک اور حادثہ کا اضافہ کردیا ہے اور میں حیران ہوں کہ قانون کی پاسداری کرنے والوں نے خود ہی قانون کی د ھجیاں اڑادیں اور مملکت کے ماتھے پر لگے داغوں میں ایک اور داغ کا اضافہ کردیا ہے ۔
قارئین وطن!مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش تو کسی نہ کسی طور ہضم کرہی رہے تھے کہ سمجھ آگئی کہ ہمارے بنگالی بہن بھائی بھی کسی بیرونی جبر اور پڑوسی کی مداخلت کیو جہ سے ہم سے الگ رہنا چاہتے ہیں اور وہ فیصلہ کرچکے ہیں کہ راہیں جدا جدا ہو گئی ہیں ۔ اور ہم لوگوں نے بھی اپنے طور فیصلہ کرلیا کہ اگر وہ ہمارے ساتھ نہیں رہناچاہتے تو نہ رہیں ۔ہم لوگ بھی ان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تو معاملہ ختم ہوگیا اور ہم اپنے اپنے زخم چاٹنے کے لیے زندہ ہیں اور اوپر سے نادیدہ ہاتھوںنے جس بے باکی اور صفائی سے آرمی پبلک سکول پر جو حملہ کیا اور جس طرح معصوم بچوں کو شہید کیاگیا ہم اپنے ان لعلوں کوکبھی بھول سکتے ہیں؟ توبہ توبہ کوئی ذی شعور اس المناک حادثہ کو نہیں بھول سکتا ہے ۔
قارئین وطن!میں جو ایک وکیل کا بیٹا اور ایک وکیل کا باپ وکلا کی اس وکلا گردی کی وجہ سے گنگ ہوں ۔ میں حیران اور پریشان بیٹھا اس سوچ میں کہ وکلا اس دہشت گردی میں کس طرح ملوث ہو گئے ۔ میرا سی فیکلٹی سے64سالوں کا تعلق ہے ۔ میرے والد مرحوم سردار ظفر اللہ غیر منقسم پاکستان بار کونسل کے ممبر رہے ہیں۔ اور انہوںنے اپنی قانونی زندگی میں نیک نامی کمائی ۔ اس کیو جہ کہ وہ کبھی آمروں کے سامنے جھکے نہیں اور جج بننے کی آفر غیر جمہوری حکومتوں کی ٹھکرائی اور جمہوریت اور قانون کی بالادستی کے لیے اپنے رفقا کار کے ساتھ مل کر جدوجہد کی اور ان جیسے لوگوں کی وجہ سے معاشرے میں وکلا کی عزت تھی ۔ اس میں کوئی شق نہیں کہ ہر دور میں ٹاﺅٹ قسم کے وکیل بھی رہے ہیں لیکن ان کی نہ تو سوسائٹی میں اور نہ ہیو کلا برادری میں عزت رہی ہے ۔ لیکن اب تو وکلا نے خاص طورپر ینگ لائرز نے تو انتہا کردی ہے ۔ اب نہ کوئی ہسپتال بچا ہے ، نہ ڈاکٹر، نہ ہی سکیورٹی کے ادارے ۔ لیکن افسوس کے ساتھ ہمارے میڈیکل پروفیشن میں بھی کچھ کالی بھیڑیں گھس گئی ہیں جنہوں نے مسیحائی کے پیشہ کی دھجیاں اڑا دی ہیں ۔
قا رئین وطن!میں اس بات پر حیران ہوں کہ سوائے بیرسٹر اعتزاز احسن کے تمام سرکردہ وکلا رہنما نے کھل کر اس وکلا گردی کی مذمت بھی نہیں کی ۔ یہ وکلا گردی جسٹس ریٹائرڈ افتخار چوہدری کے دور سے شروع ہوئی ہے اور آج یہ حال ہے کہ ان رہنماﺅں نے اپنے جتھے اور گروہ بنائے ہوئے ہیں اور اب ان کے الیکشن پر کروڑوں روپے کے اخراجات ایک سال کی صدارت پر اٹھتے ہیں ۔ ایک دفعہ مرحوم ملک سعید حسن بیرسٹر ایٹ لا سے کہانی پالا میں بیٹھا تھا کہ ان کے اور ملک قیوم کے درمیان ہونے والے الیکشن پر بات ہو رہی تھی وہ بتانے لگے کہ ان کے الیکشن پر70لاکھ روپے خرچ ہوئے ہیں ۔ میں نے بڑی حیرانگی سے پوچھا ملک صاحب70لاکھ ، ساتھ بیٹھے ان کے ایک دوست نے کہا ملک قیوم کے5کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں ۔ میں نے کہا یہ تو بہت زیادہ ہیں ایک سال کی صدارت کے لیے ۔ موصوف فرماتے ہیں کہ یہ ملک صاحب کے لیے 5کیسوں کی مار ہیں ۔ آپ قارئین!اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ جہاں ایک سال کی صدارت کے لیے کروڑوں روپے خرچ ہوں گے تو جتھے بازی اور ہلڑ بازی کیوں نہ بڑھے گی ۔
قارئین وطن!پاکستان کے سیاسی فیبرکس کو جس تیزی کے ساتھ برباد کیا جارہا ہے اگر آج بھی ہم اس ہلڑ بازی کو نہیں روکیں گے تو ملک کو ڈوبنے سے کوئی طاقت نہیں روک سکتی ۔ آئیے ہم اپنے ان وکیلوں کو بتائیں کہ ہمارے ملک کا بانی اور ان کے ساتھ کام کرنے والے ساتھی سب وکیل تھے اور انہوںنے قانون کی روشنی میں جدوجہد کرکے پاکستان بنایا تھا ۔ اب اس کی حفاظت ان وکیلوں کی ذمہ داری ہے ۔ خدارا اس پیشہ کی حُرمت کو تباہ مت کریں ۔