سردار محمد نصراللہ
جب سے روز گار کی خاطر روز گارِ وطن امریکہ میں آباد ہوئے اپنے بزرگوں کی قبروں کو سلام کرنے اور زندہ و جاوید بہن بھائیوں کو ملنے سال میں ایک آدھ چکر لگتا بعض دفعہ دو بھی لگ جاتے۔ 1931 کے الیکشن کے دوران میرے قیام کا دورانیہ تقریباً 7 ماہ تھا ,اس کی وجہ کہ میری جماعت “پاکستان کونسل مسلم لیگ” نے بھی اس الیکشن میں حصہ لیا تھا ,ہار جیت سے بے نیاز ہو کر صرف قائد اعظم اور مادرِ ملت کی مسلم لیگ کا نام زندہ رکھنے کے لیے جس کو یونی نسٹ اور فوج کے ساتھ مل کر سی آئی اے نے ختم کرنے کی کوشش کی اور ایوبی آمریت کو پروان چڑھایا اور پھر ل ن م ج وغیرہ وغیرہ مسلم لیگوں کا کچومر بنا کر پیش کرتی رہی یہی وہ الیکشن تھا جہاں سلیکٹر عمران کی خود سری سے خوف زدہ ہو کر ایک بار پھر نواز شریف کو قوم پر مسلط کر دیا اور عمران کو اپوزیشن لیڈر بھی بننے نہ دیا اور سب کی آنکھوں میں دھول جھونک کر پیپلز پارٹی کو اپوزیشن کا سہرا پہنا دیا، اس الیکشن کی خوبی یہ تھی کہ ایک طرف نواز شریف کی بیٹی مریم صفدر کو سیاسی حنا لگا کر میدان میں اتارا گیا اور دوسری طرف بلاول جانو کو سیاسی چونا پوڈر لگا کر اور دوسرا میرا لمبا قیام اپنے مادرِ وطن میں کورونا کے باعث تقریباَ 5 ماہ سے زیادہ ہو گیا ہے۔اس بار کرونا کے خوف کی وجہ سے میں اپنے گھر میسن روڈ پر ہی رہا اور “جیک آف آل ٹریڈ ،ماسٹر آف نن-“ محمد مالک،کامران شاہد،چوہدری جاوید، شاہ زیب ،حامد میر، سہیل وڑائچ،کاشف عباسی، ڈاکٹر معید پیر زادہ ،ہارون رشید،عارف نظامی، حبیب اکرم، ڈاکٹر شاہدوغیرہ وغیرہ اور انِ کے ساتھ بہت سی خواتین بھی ہیں جو سیاست پر اکنامکس پر جوڈیشری پر عسکری معاملات پر انٹرنیشنل افیئرزپر میڈیسن پر غرض دنیا کے ہر ٹاپک پر ان کو عبور حاصل ہے جب بھی ان کو سنیں آخر میں ان کی طان اس بات پر ٹوٹتی ہے کہ وزیر اعظم کی چھٹی ہونے والی ہے لیکن صبح جب آنکھ کھلتی ہے تو وزیر اعظم اپنی کرسی پر براجمان ہوتا ہے۔
میں نے اپنے ایک بہت ہی معتبر دوست علامہ تنویر قیصر شاہد صاحب سے پوچھا کہ ہمارے اینکر مرد و زن دونوں بڑے جینئیس ہیں کہ ہر فن مولا ہیں تو انہوں نے برطانیہ کے ایک بڑے اخبار کے چیف اڈیٹر سے اپنے مکالمہ کا ذکر سنایا کہ اس نے پوچھا کہ آپ کے اخبار کے اڈیٹورئیل بورڈ میں کتنے لوگ کام کرتے ہیں اور لکھنے والے کتنے ہیں تنویر صاحب نے کہا کہ جب میں نے اس کو بتایا کہ صرف ایک ہی شخص اس کام کے لئے معمور ہے تو وہ حیران ہوگیا اور اس نے اپنے اڈیٹورئیل بورڈ کی سیر کروائی اور ان کو دکھایا کہ ہر ٹاپک کا ایک ایکسپرٹ ہے اوراب تو یہ حال ہو گیا ہے کہ ان اینکرز کے اپنے اپنے یو ٹیوب چینل بھی بن گئے ہیں اور سب کے سب دانشوری کی ژالہ باری میں مصروف ہیں اور ان کی تیزیوں کو دیکھ کر مجھے یہ سب مرد و زن اینکرز کم اور جیک آف آل ٹریڈز لگے ہیں بلکہ بعض دفعہ یہ ٹاک شو ایکٹر اور ایکٹرسز لگے ہیں ڈاکٹر شاہد مسعود اور محمد مالک تو ہر شام بلکہ ان کے ساتھ شاہ زیب تو ایسے ایکٹ کر رہے ہوتے ہیں جیسے پاکستان کو یہ ہی چلا رہے ہیں ، اللہ خیر کرے پاکستان کی اور ان ڈرامہ نگار اینکروں کی کہ پاکستان اغیار کے نشانے پر ہے اور ان کی سانسیں نواز اور زرداری کی محبت میں گرفتار ہے۔
عمران کی حکومت کو چاہئے کہ وقت کی ضرورت ہے کہ وہ گورننس پر توجہ دے اور اس کے ساتھ ساتھ کرپٹ لوگوں کو کیفرِ کردار تک پہنچائے نا کہ احتساب کے شور شرابے میں الجھا کر اپنی حکومت کو جلد سے جلد اختتمام کی طرف گامزن کرے .ان پانچ مہینوں نے کورونا کی وجہ سے وزرا کی کارکردگی اور اینکروں کے جیک آف آل ٹریڈ ماسٹر آف نن کی پھرتیوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ جس طرح ہندوستان اور چین آپس میں اپنے اپنے علاقے کے لئے دست وپا ہیں ہمیں بھی چاہئے کہ ہم اپنے کشمیری بہن بھائیوں کی آزادی کے لئے اپنی جدوجہد تیز کر دیں ،اللہ نے ہم کو1962 کے بعد یہ دوسرا بڑا موقع فراہم کیا ہے کہ کشمیر کی آزادی کا نعرہ بلند کریں ۔
٭٭٭