قارئین وطن! اَب تو صبح اْٹھتے ہیں تو“فیس بک”کھولتے ڈر لگتا ہے کہ کوئی نہ کوئی جانِ عزیزی جہانِ فانی سے رخصت ہو گیا کوئی والد ہے کوئی والدہ ہیں کوئی بھائی،بہن تو کوئی دوست احباب اللہ پاک ان تمام کی مغفرت فرمائے اور درجات بلند کرے آمین۔ اسی طرح وطن عزیز کا ٹیلیویژن آن کرو تو پتا چلتا ہے کہ آج کرونا کی نظر سینکڑوں ہو گئے امریکن ٹی وی سے پتا چلتا ہے کہ آج کسی پولیس والے نے کسی سیاہ فام کو جبر کا نشانہ بنایا اور اْس کی جان لے لی بھارتی چینلز کشمیری بھائیوں اور بہنوں پر ہندتوا کے جبر کی داستان رقم کر رہا ہے جبر کی طوالت اتنی طویل ہوتی جارہی ہے کہ پاکستان میں چین ہے نہ امریکہ میں، پاکستان کے سیاسی حالات پر لکھنا بقول مرشد ثانی فیض صاحب !
جسم پر قید ہے جزبات پر زنجیریں ہیں
فکر محبوس ہے گفتار پر تعزیریں ہیں
کسی بڑے شخص پر لکھنا جرم ہے خواہ اْس نے قوم کو لو ٹا ہو، خائین ہو اْس کو اچھا کہنا ہی منشا ٹھہرا کسی ادارے کے سربراہ پر بات کرنا منع ہے عدالتوں کے فیصلوں پر لب کشائی فقئیہ شہر کی تحقیر سمجھا جائے گا۔ دانش عصر ڈاکٹر مقصود جعفری صاحب کی نظم کا ایک حصہ دل کے قریب سے گزرا تو سوچا اپنے قارئین اور احباب سے شئیر کر لوں!
زور و زر والے عدالت سے بری دیکھے ہیں
یہ ہے انصاف تو اْس پر ہو خدا کی لعنت
ایسے منصف سے تو ابلیس بھی شرمندہ ہے
میں تو سمجھا تھا کہ ابلیس ہوا غرقِ فنا
اب میں سمجھا ہوں کہ ابلیس ابھی زندہ ہے
قارئین وطن! دانش عصر جعفری صاحب نے اْن جج صاحب کے فیصلے کی طرف اشارہ کیا لگتا ہے جس میں وہ صادر فرماتے ہیں کہ نیب اور قانون نافذ کرنے والے ادارے جب کسی مجرم کو پکڑنے جائیں اْس کو دس دن پہلے خبر دیں کہ ہم فلاں فلاں دن تم کو اپنی حراست میں لیں گے۔ آجکل ایسے ہی فیصلے صادر فرمائے جا رہیں ہیں۔ جب قاضی خود پابندی لگا دے کہ میرے فیصلہ کی نہ تو کوئی تشہیر ہوگی نہ اْس پر کو ئی بحث خواہ قوم کا اْس فیصلے سے اربوں کا نقصان کیوں نہ ہو جائے اس طرح کے فیصلے تو ایسٹ انڈیا کمپنی کے زمانے میں بھی نہ ہوتے ہوں جس طرح کہ آج ہورہے ہیں اتنا جبر اتنا جبر خدا کی پناہ۔ جیسے جیسے اقتدار کا انداز زوال پذیر ہوتا جارہا ہے ویسے ویسے اْس کو چھپانے کے لئے جبر بڑھتا جا رہا ہے جبر کا عالم یہ ہے کہ لکھْنے والوں پر پابندی ہے اور سگ آزاد ایسی ایسی آوازیں کسی گئیں،اداروں پر خاص طور پر سلامتی کے ادارے پر کہ کسی پر کوئی پابندی عائد نہیں ہوئی جب یہ راز کریدا تو پتہ چلا کے بولنے والے زیاد ہ طاقت ور ہوتے ہیں اور لکھنے والے کمزور بقول سہیل وڑائچ“یہ کھلا تضاد نہیں ”۔
قارئین وطن! عمران خان کی حکومت کمزور ہوتی نظر آرہی ہے ایسے لگتا ہے کہ کسی دم دھڑن تختہ ہونے والا ہے اس کا اور خاص طور پر جب عمران خان خود اس بات کا دعویٰ کرے کہ وہ مافیا کا مقابلہ نہیں کر سکتا عوام چاہئے عمران صاحب عوام انقلاب لاتے ہیں کمزور کا ساتھ نہیں دیتے عوام طاقت ور کا ساتھ دیتی ہے جو حکمرانی کے فن سے آشنا ہو جو ظالم کے آگے جھکنا نہ جانتا ہو لیکن آپ تو خان صاحب مافیا سے ڈر گئے ہیں آپ تو اپنی عوام کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے سے قاصر ہیں جو چینی اور آٹا چوروں سے ڈر گیا ہو عوام کیسے اْس کا ساتھ دے سکتی ہے عوام کا ساتھ مانگنے سے پہلے آپ کو مضبوط ہونا پڑے گا،اپنی حکومت کو دوام بخشنا ہے تو لکھنے لکھانے والوں پر جبر ختم کریں اور مافیا اور منافہ خوروں کے لئے جبر کا استعمال کریں اسی میں پاکستان کی بقا ہے۔ خان صاحب گرتی ہوئی ساکھ کا تقاضا ہے کہ اپنی کابینہ میں وزارتوں کو ادھر اْدھر کرنے کے بجائے کرپٹ اور نکمے وزرا کی چھٹی کروائیں مانا کہ آپ نے کوئی کرپشن نہیں کی تو لوگ کہیں گے ایوب خان کی طرح کہ ایوب اچھا آدمی تھا اْس کے بیٹوں نے مروایا اور اسی طرح بھٹو بڑا قابل تھا لیکن اس کے وزیروں نے اْس کو مروایا لیکن اس میں ذمہ داری ٹاپ سیٹ کی ہوتی ہے لہٰذا اس الزام سے بچیں اور اپنی حکومت پر گرفت سخت کریں پاکستان زندہ باد۔
٭٭٭