قارئین اور عزیزانِ وطن! ایک طرف افغانستان اور پاکستان کی فوجی جھڑپ جہاں اپنی فوج کا پلڑا بھاری رہا لیکن پورے چار پانچ روز سے دو درجن مشہور اینکرز جو اب وی لاگرز بھی ہیں نے لاہور کے مشہور بدمعاش ڈان خواجہ تحریف عرف طیفی بٹ کا پولیس کے ہاتھوں جعلی پولیس مقابلہ میں ہلاکت پر خبریں دی ہیں طیفی بٹ تقریبا ایک سال سے دوبئی میں رو پوش تھا ایک اور لاہور کے مشہور ڈان بلا ٹرکاں والے کے بیٹے کے قتل کے الزام میں دو کزن طیفی بٹ اور گوگی بٹ بڑے معروف قبضہ گروپ کے سربراہ تھے دونوں گوالمنڈی لاہور کے رہائشی تھے سوشل میڈیا کا اور کوئی کمال ہے یا نہیں اب ہر قسم کی خبر مل جاتی ہے سننے میں آیا ہے کہ پاکستان پولیس طیفی بٹ کو دوبئی سے انٹر پول کے ذریعے گرفتار کر کے لائی تھی۔ دوبئی سے لاہور لانے کے بجائے اس کو کراچی اتارا گیا اور پھر پولیس وین کے ذریعے اس کو رحیم یار خان لے جایا گیا بقول پولیس وہاں اس کے کچھ دوست چھڑانے کے لئے آئے اور پولیس اور ساتھیوں کے مڈ بھیڑ کی وجہ سے طیفی اپنے دوستوں کی گولی لگنے سے ہلاک ہوا۔ طیفی کے قتل کی اسٹوری کسی نے نہیں خریدی اور سب جانتے ہیں کہ یہ ہمارے محافظوں پولیس نے کیا ہے ۔
قارئین اور عزیزانِ وطن! جب پولیس نے طیفی بٹ کے بڑے بھائی خواجہ اظہر گلشن کو دی اس نے سب سے پہلا جملہ انگریزی میں بولاThank you Nawaz Sharif and Mariam Nawaz for giving me this giftاظہر گلشن صاحب کے اس جملہ میں ایک کرب تھا ایک چیخ تھی کہ تم نے میرا بھائی نہیں میرا بیٹا قتل کیا ہے ۔ اظہر گلشن صاحب سے میری پہلی ملاقات کئی زمانے پہلے میرے سیاسی مینٹور اور مسلم لیگ کے مرکزی سیکرٹری جرنل مرحوم اقبال احمد خان صاحب کے بھتیجے عامر خان کی دعوت ولیمہ پر ہوئی ہماری میز پر بھیٹنے والوں میں اقبال ڈار جونیجو مسلم لیگ کے صدر ایک ایم پی اے میاں شہباز مزنگی ہوا کرتا تھا جو افسروں کو میاں شہاز کہ کر ڈرایا کرتا تھا اور کام نکلواتا اظہر گلشن صاحب توقیر ضیا جو کرکٹ کا چئیرمین ہوا کرتا تھا کا بھا ئی میں اس کے نام سے نہیں واقف گوہر علی خان سیکرٹری جرنل کونسل مسلم لیگ اور محمود علی قصوری۔ اظہر گلشن صاحب برے دبنگ انداز میں نواز شریف کو گالیاں بک رہے تھے اس وقت تک میں ان کے نام سے نہیں واقف تھا میں نے آہستہ سے میاں شہباز سے پوچھا کہ یہ صاحب کون ہیں شہباز نے بڑا چیخ کر کہا کے تم ان کو نہیں جانتے میں نے کہا کہ اگر جانتا تو پھر میں تم سے کیوں پوچھتا پھر چیخ کر کہتا یہ طیفی بٹ کے بڑے بھائی ہیں طیفی کے نام سے میں واقف تھا لیکن میں سمجھ نہیں سکا کہ یہ نواز کو گالیاں کیوں نکال رہیں ہیں جبکہ طیفی اور گوگی تو نواز اور شہباز شریف کے دست راست تھے اور ان کے سیاسی مخالفین کو زد و کوب کرنے میں پیش پیش ہوا کرتے تھے میں نے بھی موقعہ غنیمت جانا اور اظہر صاحب کو اچکل دی کہ آپ کہتے ہیں کہ وہ انگریزی کا ایک لفظ نہیں بول سکتا وہ تو میرا اسکول فیلو ہے سینٹ انتھونی ہائی اسکول کا اظہر صاحب نے پھر ایک موٹی سی گالی دی کہ یہ مسلم ہائی اسکول لوئیر مال میں پڑھتا تھا وہاں سے اس کے باپ نے سفارش کر وا کر داخل کر وا دیا۔ خیر میں اظہر صاحب کی گالیاں اور ان کی بزنس آئی کیو کو انجوائے کر رہا تھا کہ محمود علی قصوری جرنل اختر عبدالرحمان کے بیٹے ہمایوں اختر کی بہادری کا چرچا کرنے لگے خادم نے کہا قصوری صاحب آپ نے باب وڈز ورتھ کی کتاب تو پڑی ہوگیجس میں جرنل زینی کے حوالے سے باب نے بتایا کہ جب زینی آتا تھا تو چار بوریاں ڈالروں سے بھری لایا کرتا تھا جن میں دو بوریاں جرنل اختر کی گاڑی میں جاتی تھیں اور دو افغانی کیمپوں میں قصوری صاحب کو میری بات بری لگی اور پھر محفل شادی کے پکوانوں میں گم ہو گئی اور پھر آہستہ آہستہ رخصت لی /
قارئین اور عزیزانِ وطن! آج پھر خواجہ اظہر گلشن کا کرب محسوس ہوا جب اس نے انٹر ویو لینے والوں کو بتایا کہ نواز شریف اور مریم نے یہ جو مخالفین سے بدلہ لینے کے لئے جو نہی کارپوریشن بنائی ہے پاس کھڑے لوگوں کو گواہ بنا کر کہ رہا تھا کہ میری بات یاد رکھنا کہ یہی لوگ کل نواز اور مریم کے خلاف وعدہ معاف گواہ ہوں گے۔ طیفی بٹ اور گوگی بٹ کے دو کزن نیو یارک میں ہیں تبسم بٹ صاحب اور ڈاکٹر شاہد چغتائی کی آہلیہ بیگم آمنہ شاہد اللہ پاک ان کے کزن کی مغفرت فرمائے اور درجات بلند کرے ویسے تو سنتے ائے ہیں کہ جس جنازے میں چالیس کندا دینے والے ہوں تو وہ جنتی ہے لیکن طیفی کو ہزاروں نے کندا دیا اور جنت الفردوس میں پہنچا دیا۔
قارئین اور عزیزان وطن! وطن عزیز کی سیاست آج کل خون میں نہا رہی ہے کہیں دہشت گردوں کے ہاتھوں اور کہیں ٹی ایل پی کے کارکن شہید ہو رہیں ہے اور ہمارے فارم کے وزیر اعظم شہنشاہ اعظم ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں فلسطین اور اسرائیل کے درمیان غزہ میں جنگ بندی کے لئے پہنچے ہیں اور وہاں بھی وزیرا عظم نے منچی کے دیے جملے ادا کئے جن کا مفئوم یہ تھا کہ شہنشاہ کو امن قائم کرنے کے لئے نوبل انعام ملنا چاہئے شہباز کے چار جملہ اپنی شان میں سن کر شرمندہ شرمندہ سے لگے اور ساتھ ہی وری گڈ وری گڈ کہ کر پریس کانفرنس کا اختتام کیا میری جناب فیلڈ مارشل صاحب سے ادنی سی گزارش ہے کہ ملک میں امن پر توجہ دیں اور خطہ میں پھیلی دہشت گردی اور بد امنی کو ختم کروائیں پاکستان زندہ باد !
٭٭٭











