سردار محمد نصراللہ
قارئین وطن! مادرِ وطن کی فضاو¿ں کو جیسے ہی خیر باد کہا اداسیوں نے اپنے دامن میں سمیٹ لیا واپسی پر میری “میانی صاحب “ قبرستان حاضری ایجنڈے میں شامل ہوتی ہے کہ اپنے دادا مولوی انشاللہ خان چیف اڈیٹر اور مالک”اخبارِ وطن” اپنی داد ی معراج بیگم والد سردار ظفراللہ ایڈوکیٹ اور والدہ عقیلہ بیگم اور دیگر مرحومین کو سلام عقیدت پیش کرنا مقصود ہوتا ہے اس بار میں نے محسوس کیا کہ پچھلے چھ سات ماہ کے وقفہ کے دوران بزرگوں کے احاطہ میں نئی قبروں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے کہ چلنا محال تھا پتا چلا کہ “کووڈ۰۹ “ کے سبب قبروں کا یہ پھیلاو¿ ہے اللہ مغفرت فرمائے ان سب مرحومین کی اور ان کے اہل خانہ کو صبرِ جمیل عطا کرے کہ اس موذی مرض نے تو دنیا کے ہر خطہ کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور تو اور ماسک ہماری زندگی کا نہ چاہنے والا ساتھی بن چکا ہے اور احباب ہیں کہ ہاتھ ملانے سے اس طرح گریزاں ہے جیسے ہر شخص کو اچھوت کی بیماری ہو ۔ اللہ کرے کہ جلد ان پرابلمز سے نجات ملے اور زندگی کی رمق پہلے کی طرح بحال ہو آمین۔
قارئین وطن ! 6 فروری کا تمام دن سفر میں گزرا ایک حصہ لاہور سے قطر اور پھر قطر سے ۱۳ گھنٹے نیو یارک ۔ سفر مادرِ وطن کی سیاست اور اس کے کارپردازوں کی حرکات و سکنات ، صاحب اختیار کے چال چلنوں اور اقتدار کی راہداریوں میں بکھرے بہروپیوں کے بارے میں سوچتے اور سوتے، جاگتے کٹ گیا بقول شاعر !
سفر تو خیر کٹ گیا
میں کر چیوں میں بٹ گیا
گویا ایک پورا دن سیاسی خبروں سے محروم رہا حالانکہ میں نے کچھ مس نہیں کیا وہی سوال تھے وہی جواب وزیر اعظم میں نہ این آر او دوں گا اور اپوزیشن والے بچو ہم تو سب باہر ہیں تم سے کون این آر او مانگ رہا ہے یہ سرکس ہے ہماری سیاست کے چار پانچ بندر قلاباز حکومتی ترجمان ہیں اور اتنے ہی بندر قلابازیاں اپوزیشن والے لگا رہے ہیں یقین جانیے یہی کچھ میں نے چھ ہفتے مادرِ وطن میں گزارنے کے بعد دیکھا شام ہوتے ہی دونوں جانب سے لفافوں کی برسات میں نہانے والوں کی ٹکریاں سج جاتی ہیں ان میں بیٹھے ہوئے اینکرز ایک لمحہ حکومت کو جانے کا اِ ذن دے رہے ہوتے ہیں تو دوسرے لمحہ ا±س کو پانچ سال مکمل کی نوید دے رہے ہوتے ہیں پھر ہر دوسرے دن وزیر اعظم کالے چشموں کے ساتھ تین سو کنال اپنی کوٹھی بنی گالا کے لان میں ایک جانب جرنل باجوہ صاحب اور ایک جانب آئی ایس آئی کے سربراہ سوٹ میں بٹھائے نظر آتے ہیں اپنی سمجھ سے باہر ہے کہ یہ تصویر کس پر کیا رعب ڈال رہی ہے سوائے اس کے کہ بھٹو مرحوم کا ایک واقعہ یاد آتا ہے جرنل ضیا کو جب اپنے وقت کی اپوزیشن کو اڈیالہ جیل میں ملنے جاتا تو پدر فضل الرحمان مفتی محمود کہا کرتے تھے کہ بھٹو اس کو ہمیں ڈرانے کے لئے لاتے ہو، اس کے بعد سب نے دیکھا کے جرنل ضیا نے کیا گ±ل کھلائے ۔ ایک بات تو اپنی سمجھ میں آتی ہے کہ ہماری سیاست کے کارپردازوں نے تاریخ سے نہ کبھی کو ئی سبق سیکھا ہے اور نہ کبھی سیکھیں گے پاکستان کے دو لخت ہونے سے بڑا پہاڑ ہے جو ہم پر ٹوٹا کیا، ہم نے کچھ سیکھا نہ سیاست دانوں نے نہ عوام نے اور نہ ہی ہمارے فوجی افسروں نے ۔
قارئین وطن! آجکل سینٹ کے الیکشن کی آمد آمد ہے عمران خان کی ذاتی خواہش کہ الیکشن “شو آف ہینڈ” کے ذریعے ہوں لیکن ان کی اپنی جماعت کے بہت سے ساتھی ا±س کے برعکس چاہتے ہیں کہ خفیہ بیلٹنگ کے ذریعے بڑے لوگوں کی جیبیں گرم ہو جاتی ہیں دوسری طرف اپوزیشن والے تو چاہتے ہیں کہ خفیہ کے ذریعے ہی ووٹ ڈالیں جائیں تاکہ نوٹ بھی کما کھائیں اور خان صاحب کو ٹف ٹائم بھی دیا جائے لیکن مزے کی بات یہ ہوئی کہ نواز شریف کی بیٹی کسی مجمع کو بتا رہی تھی کہ عمران کے بڑوں کا فون آیا ہے عالم ارواح سے کہ تم ہمارے “پروٹیجی” معنی ہمارے برخوردار جو سینیٹ میں شو آف ہینڈ کے ذریعے ووٹ مانگ رہا ہے تو اس کی بات مانو اس پر مریم کا جواب جی انکل آپ جیسے کہیں گے ویسا ہی ہو گا لیکن ہم اس سے بات نہیں کریں گے کیسا رنگیلا جواب ہے دخترِ نواز کا میرے بھائیوں اور بہنوں یہ ہے حال ہماری سیاست کا۔ ایک اور بات جو مجھے ۱۳ گھنٹے کے سفر میں ستاتی رہی کہ مریم نواز اور بلاول زرداری ہماری سیاست کے بڑے ہوں گے، اے اللہ پاکستانیوں کے کبیرہ و صغیرہ گناہوں کو بخش دے کہ ہم آصف اور نواز کے بعد اس گند کو اٹھانے کے قابل نہیں ہیں بس رحم فرما ہم پر اور میرے فوجی افسروں کو بھی عقل دے بس۔
٭٭٭