کامل احمر
اکثر سنا جاتا ہے کہ اشیاءخوردونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں جب سے عمران خان وزیر اعظم بنے ہیں وہ اپنے بہت سے وعدوں کو نبھانے سے قاصر رہے ہیں ان میں کھانے پینے کی اشیاءکے علاوہ پٹرول بجلی اور گیس ہے کہ بجٹ سے پہلے اور بعد مہنگائی بڑھتی جاتی ہے۔ سمجھانے کی کوشش ہوتی ہے کہ IMF اور پچھلی حکومتیں اس کی ذمہ دار ہیں قرضہ اور سود کی مد میں خزانہ خالی ہو رہا ہے۔ لیکن حکومت بہت سے اقدام کر سکتی ہے اس کی روک تھام کے شکر کا بحران جو ہمیشہ سے رہا ہے اور اس میں عمران کی حکومت میں شامل لوگ ذمہ دار ہیں ۔ پچھلے وقتوں میں بلیک مارکٹنگ ہوتی تھی۔ یعنی تاجر لوگ ضرورت کی اشیاءکو چھپا کر مہنگے داموں چیزوں کو فروخت کرتے تھے جنرل ایوب خان نے آتے ہی ان بحران کو ختم کیا اور ہم اس کے گواہ ہیں ۔ یہ وہ تاریخ بنیں جو مورّخ لکھتا ہے اور حکومت کے حق میں قصیدہ گوئی کرتا ہے۔
تاریخ کے صفحات پر بھی بہت سی ایسی باتیں ملیں گی جس کو پڑھ کر کسی بادشاہ جس نے ہندوستان پر حکمرانی کی ہو کا کردار متنازعہ ہو جاتا ہے ۔ ہندوستان میں یہ کام حکومت کی نگرانی میں ہو رہا ہے کہ کسی طرح مسلمان بادشاہوں کی کردار کشی کی جائے اور اس کام میں وہاں کی فلم انڈسٹری اپنا حصہ ڈالتی رہتی ہے وہاں کے ہندو انتہا پسند طبقے کو ویسے تو ہر مسلمان بادشاہ سے نفرت ہے لیکن اورنگ زیب اور علاو¿الدین خلجی سے شدید نفرت ہے۔ خلجی کے کردار کو فلم میں مسخ کیا ہے۔ انڈیا سینما جو کہ اس دور میں نہایت پرُکشش میڈیا ہے کے ذریعے وہاں کے عوام میں نفرتیں پھیلاتا رہتا ہے۔
ہمیں یقین نہ آتا اگر ہم ابن بطوطہ کا سفر نامہ نہ پڑھتے ، ابن ِ بطوطہ نے جو شاید اب تک کے سیاحوں میں سب سے زیادہ ذہین ، عالم و فاضل اور اپنی طویل سیاحت کیلئے مشہور ہے جس کا بیان دلچسپ اور صاف صاف بغیر لاگ لپیٹ کے ہے ۔ اپنے ہندوستان کے قیام میں وہاں کی تاریخ بتانا ہے کہ سلطان علاو¿الدین خلجی نہایت ہی مدبرین چلا اور بیدار مغز بادشاہ تھا۔ عوام کی تکالیف کا خیال رکھتا تھا بہت سے امور حکومت وہ خود انجام دیتا تھا۔ حتیٰ کہ بازار میں کھانے پینے کی اشیاءکے نرخ روزانہ معلوم کرتا تھا اس کیلئے اس نے ایک محتسب رکھا ہوا تھا ، بطوطہ کے سفرنامہ میں لکھا ہے کہ بادشاہ نے محتسب سے معلوم کیا کہ گوشت کے مہنگا ہونے کی کیا وجہ سے اسے بتایا گیا کہ گائے اور بکری پر زکات ( محصول) لی جاتی ہے۔ خلجی نے اسی وقت محصول معاف کر دیا۔ سوداگروں کو خزانہ سے رقم دی اور کہا کہ اسی وقت گائے اور بکریاں خرید کر لاو¿ اور بیچ کر محصول کی رقم پوری کر دو اس سلسلے میں علاو¿الدین خلجی نے بہت کام کئے۔ علاو¿الدین خلجی کے اور بھی احسان ہندوستان پر ہیں جب تیرہویں صدی میں منگول نے دنیا بھر میں دہشت پھیلا رکھی تھی اور بغداد کو آگ لگا کر راکھ کر دیا تھا ۔ لائیبریریاں جلا کر خاک کر دی تھیں انکا رُخ ہندوستان پر حملہ کیا لیکن خلجی کی جنگو فوج کے سامنے انکو بھاگتے بنیں ہمیں عراق پر امریکہ بہادر کی کارپیٹ بمباری یاد آتی ہے ۔ تاریخ کی کتابوں میں یہ کیسے لکھا جائے گا یہ الگ بات ہے مگر حقیقت یہ ہی ہے جو ہمارے سامنے سے گزر چکی ہے ۔خلجی کے تعلق سے مہنگائی کا حوالہ دینے کا مقصد یہ ہے کہ آج کے پاکستانی حکمران عمران خان کے وزراءکس کھیت کی مولی ہیں سوائے بیان بازی کے جو عوام کی سمجھ سے باہر ہے حکومت کو معلوم ہے کہ مہنگائی کا ذمہ دار کون ہے IMF اور ورلڈ بینک کے علاوہ لیکن مجال ہے کہ مجرموں کو پکڑ کر سزا دی جائے البتہ کمیشن بٹھا دیا جاتا ہے ۔ یہ کمیشن بٹھانے کی لعنت ، بنگلہ دیش بننے کے بعد کی ہے یاد ہو گا محمود الرحمن کمیشن لیکن کمیشن بٹھانے کے نتائجج صفر ہی رہے ہیں۔
پرانے وقتوں میں ہندوستان پر ایک کے بعد ایک حکمران نے حکومت کی ہے ۔ اشوکا کے بعد اور یہ سب کے سب ایک بنجر علاقے افغانستان سے آئے تھے۔ بنجر سے ہماری مراد کنگال ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ اسلام کو پھیلانے کے ساتھ ساتھ مال و زر کی چاہ بھی تھی۔ اور جب انہوں نے وہاں خوبصورتی دیکھی تو اکبر بادشاہ نے دین ِ الٰہی کو متعارف کرایا۔ لودھی کے بعد بابر پھر ہمایوں اور بابر کا سردارشیر شاہ سوری ۔ افسوس کہ اسے زیادہ جینے کا موقعہ نہیں ملا ورنہ مغل کا خاتمہ 1540 ءمیں ہو گیا تھا۔ مسلمان حکمرانوں کی تاریخ ترتیب سے ایک کے بعد ایک کے قتل سے بھری ہوئی ہے جس تذکرہ ابن ِ بطوطہ نے سفرنامے میں کیا ہے اور دلچسپ انداز میں کیا ہے رضیہ سلطانہ کے قتل ہونے تک ۔ ایک تفصیل ہے ۔ مغل حکمرانوں کے آنے کے بعد یہ سلسلہ رک گیا تھا لیکن اورنگ زیب کے دور میں پھر شروع ہو گا۔ ہر چند کہ وہ کٹر مسلمان تھا اس نے مذہب کو غلط سمت میں جانے سے روکنے کی وجہ سے ایسا کیا ہو جس کے نتیجے میں اسکے بھائیوں نے خمیازہ بھگتا اور شاہجہاں قلعہ میں قید رہا۔ وہ قید نہ ہوتا تو اورنگ زیب کو دہلی کا تخت نہ ملتا سب سے طویل مدت حکمرانی کی ( 50 سال کے قریب )
ظالم اور کمزور حکمرانوں کا بدلنا بھی ملک و قوم کیلئے فائدہ مند ہوتا ہے ۔ لیکن ساتھ ساتھ مجرموں کو جو حکومت اور عوام کا مستقبل تاریک بنانے میں لگے رہتے ہیں اُن کا سر قلم کرنا بھی ضروری ہے جو چین کرتا ہے اور مشرق وسطیٰ اور سعودیہ میں ہے وہاں جرائم اور چور بازاری شروع ہونے کے پہلے ہی ختم کر دی جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں ایسا رواج ختم کر دیا گیا ہے عدلیہ نے اس سلسلے میں بہت کام کیا ہے ۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور نوجوان ذہانت سے بھر پور خوبصورتی ایسی کہ ابن ِ بطوطہ آج کے پاکستان کو دیکھتا جہاں سیاحت ہے تو مالدیپ کو بھول جاتا۔ جہاں اس نے چار شادیاں کی تھیں ۔ تاریخ بھی کیا چیز ہے سنا تھا کہ خود کو دہراتی ہے کاش اس کے دہرانے سے اچھی بات نکل آئے ….