اعمران خان اب پاکستان کی پہچان ہے!!!

0
356

کچھ دن پہلے جب نیویارک اور نیوجرسی کے جیالوں نے عمران خان کی امریکہ آمد کیلئے استقبالیہ اور انتظامیہ کمیٹی تشکیل دی تو ہمیں یقین نہیں تھا کہ اتنے کم عرصہ میں عمران خان کیلئے یہ تاریخی خوش آمدید ہوگا۔ سب سے پہلے ہم ایک پاکستانی کی حیثیت سے ان سب حضرات کا شکریہ ادا کرتے چلیں جنہوں نے مالی اور اخلاقی طور سے اس استقبال کیلئے کام کیا۔ ان میں سبے ہم بہت لوگ کو نہیں جانتے۔ ہمارے دوست سید فضل الحق ایسے معاملے میں جہاں پاکستان کی عظمت بڑھانے کا مشن ہو آگے آگے ہوتے ہیں۔ انہوں نے یہی ہمیں دعوت دی واشنگٹن چلنے کی لیکن یہاں شادی کے پہلے سے طے شدہ تقریبات نے ہمیں ایسے تاریخی اور یادگار موقع سے دور رکھا جس کا افسوس رہے گا۔اس شدید اور ریکارڈ توڑ گرمی میں بس میں سوار ہونے سے پہلے انتظار میں اور پھر واشنگٹن ون ایرینا کے دروازے پر 10 بجے صبح سے قطار میں کھڑے ہونے تک ایک آزمائش تھی لیکن ہمارے نوجوان اور نئی نسل کے جیالوں نے یہاں رہ کر پاکستان سے اپنی محبت اور عمران خان سے دلجوئی کا ثبوت دیا۔ ہم ان سب کے بھی شکر گزار ہیں۔ اس ساری جدوجہد میں تین چہرے‘ سلیم ملک‘ ضمیر چوہدری اور پرویز ریاض جنہیں ہم جانتے ہیں ہر جگہ نظر آئے اور ان سب کی کاوشوں کا نتیجہ یہ تھا کہ عمران خان کو ایک فقید المثال خوش آمدید ملا۔ ہر چند کہ وہ اس کا حقدار ہے اور کیوں نہ ہوگا جس نے پچھلے 22 سال سے جدوجہد جاری رکھی ہے وہ صحافی جو اس کے نام کی مالا جپتے تھے‘ اسے چھوڑ گئے یا اس سے مایوس ہوگئے ان میں ایک نمایاں نام ہارون رشید کا ہے۔ ہم ان کے سنہری الفاظ نہیں بھولتے۔ ”اس کی تو قسمت میں ہی وزیراعظم بننا لکھا ہے“ اور بعد میں وہ عمران خان سے ناراضگی کی بنا پر بہت کچھ کہتے رہے۔ صحافی آنے والے حالات اور وقت کا دانشور ہوتا ہے۔ وہ بتا سکتا ہے کہ سیاسی لوگ جب کہتے ہیں کہ اس کے پیچھے کیا عزائم ہیں‘ کسی بھی مقبول ہستی کے کام دیکھ کر پیش گوئی کرسکتا ہے کہ یہ شخص کتنا کامیاب ہوگا۔ ہمارے بہت سے صحافیوں نے حزب اختلاف (بے ایمانوں کا ٹولہ) کے ساتھ مل کر عمران خان کے ہر قدم اور بات کو منفی انداز دیا۔ اس کے پیچھے سب جانتے ہیں لفافہ صحافت تھی۔ ہم نے جب چار پانچ سال پہلے عمران خان کی مواقفت میں کالم لکھے اور یکے بعد دیگرے کئی کالم لکھ گئے تو جس جس نے پڑھے ان کا خیال تھا‘ ہم عمران زدہ ہیں یا پھر کچھ نہیں جانتے عمران کیلئے۔ ہمیں عمران ان کی وہ باتیں جاننے کی ضرورت نہیں تھی کہ لیڈر پیدا ہوتے ہی نہیں بن جاتا جن حالات کی چکی میں وہ بڑا ہوتا ہے۔ اپنے اردگرد دیکھتا ہے‘ ملک کے حالات کو بگڑتے ہوئے دیکھتا ہے تو کوئی بات اس ک دل و دماغ پر اثر کرتی ہے مگر ضروری ہے کہ اس کا ضمیر زندہ ہو اور خوف خدا ہو۔ بڑا کام کرنے کیلئے تجربہ سے زیادہ جذبہ ہوتا ہے۔ منڈیلا‘ گاندھی‘ قائداعظم‘ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر میں یہ ساری قوتیں تھیں اور ساتھ ہی جان پر کھیلنے کا عزم بھی اور تاریخ میں زندہ رہنے کا جنون بھی۔ آج یہ ساری باتیں ہم عمران میں دیکھتے ہیں۔ ہمارے ملک میں کبھی بھی حزب اختلاف اور حکومت کرنے والوں کے درمیان مل بیٹھنے کا رواج نہیں رہا۔ پارلیمنٹ اس کیلئے صحیح جگہ ہوتی ہے لیکن وہاں حاضری دیکھ کر لگتا ہے جو غائب ہیں وہ اپنے ذاتی مشغلے کررہے ہیں اور جو حاضر ہیں وہ بدتہذیبی کی حد تک ذاتی مفاد کو فوقیت دے کر ایک دوسرے پر گالیاں نچھاور کررہے ہیں۔
یہ بات سب جانتے ہیں کہ نواز شریف‘ زرداری‘ مولانا فضل الرحمن‘ اسفند یار کس قماش کے لوگ ہیں اور پاکستان کے ساتھ جمہوریت کی آڑ میں اپنے ذاتی ایجنڈے کے تحت آئی ایم ایف سے قرضہ لے کر باہر ملکوں میں جائیدادیں خریدی ہیں اور سویز اور دبئی کے بینکوں میں ملک کی دولت کو چرا کر اکاﺅنٹ کھولے ہیں۔ اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور کہا جا چکا ہے۔ پانامہ لیکس سے جو بات شروع ہوئی تھی اور جن جن پر الزام تھے وہ جھوٹے چور کی طرح ڈٹ کر کوتوال کو ہی الزام دے رہے تھے اور میڈیا کو خرید کر ان کے ذہنی طور پر نابالغ بچے ابو بچاﺅ کی تحریک چلا رہے تھے جو اب بھی جاری ہے۔ نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے حکومت اور آرمی کو جن الفاظ میں نوازا اور نواز رہی ہے‘ جلد ہی وہ اپنے کیفر کردار کو پہنچتی نظر آرہی ہے۔ بلاول جو کسی پودے کی طرح زمین میں پلانٹ کیا گیا ہے‘ مسلسل لکھی ہوئی تقریریں کرکے بولنے لگا ہے اور مخالفت کے سارے تیر عمران کی طرف پھینکتا ہے اور باقی کے بدعنوانوں کو ہم شاہ دولہا کے چوہے ہی کہیں گے جن کے دماغ کو سلب کردیا گیا ہے کہ وہ حالات کو جان سکیں۔
عمران خان کے دورے سے پہلے حسین حقانی لاڈلے بلاول کو امریکہ لے کر آئے تھے لیکن ان کا کچھ پتہ نہیں چلا‘ ممکن ہے وہ ا یرینا میں عمران خان کے 30 ہزار سے زیادہ پاکستانیوں کو خطاب کرنے کے بعد کہیں چھپ گئے ہوں۔ ایرینا میں بیٹھے پاکستانیوں کا جوش و خروش اور عمران خان کی تقریر سننے کی بے تابی دیکھنے کی تھی۔ لوگوں کو بوریت سے بچانے کیلئے بیچ بیچ میں عمران خان کی بچپن سے اب تک کی ویڈیو دکھائی جاتی رہی۔ بیک گراﺅنڈ میں عمران خان پر بنائے گئے نغمے چلتے رہے۔ پہلے شاہ محمود قریشی آئے اور پہلے سے کہیں زیادہ دھواں دھار تقریر کی۔ اس کے بعد عمران خان کو دعوت دی گئی۔ اپنی 41 منٹ کی تقریر میں عمران خان نے وہی کچھ کہا جو عوام سننا چاہتے تھے اور جاننا چاہتے تھے۔ مخالفین نے کہا کہ لگتا تھا عمران خان کنٹینر پر کھڑے ہیں اور اپنے مخالفین کو برا بھلا کہہ رہے یہں۔ ایک لمحہ کیلئے یہ بات ہم نے بھی سوچی تھی لیکن جواب ملا۔ یہ بھی ضروری تھا کہ جس طرح پاکستان میں بچہ بچہ جان چکا ہے کہ پاکستان مالی‘ معاشرتی‘ معاشی اور دہشت گردی کا شکار ہے اس کا ذمہ دار کون ہے اور یہ اچھی بات تھی کہ ہمارے نوجوان نسل جو پاکستان سے جڑی ہوئی ہے اپنے عزیزوں کی وجہ سے جان لے کہ ہم ترقی کی دوڑ میں کیوں پیچھے رہ گئے ہیں۔ ریاست مدینہ کی کامیابی کا کیا راز تھا۔ عمران نے بار بار ہر شعبے میں میرٹ پر قابل لوگوں کو تعینات نہ کرنے کی وجہ پاکستان کا تعلیم‘ کھیل‘ معیشت میں پیچھے رہ جانا ہے۔ ایک بات جو کرکٹ میں ناکامی سے متعلق تھی اس کو بہتر بنانے کا عزم دہرایا کہ وہ جاتے ہی میرٹ پر کھلاڑیوں کا انتخاب کریں گے اور ٹیم کو نمبرون بنائیں گے۔ ہمیں خوشی ہے کہ عمران خان نے اعتراف کیا کہ کرکٹ سیاست کا شکار ہے جبکہ ہمارے ملک میں ہر شعبے میں دنیا کے مقابلے میں بہترین ٹیلنٹ ہے‘ کرکٹ کیلئے انہوں نے آسٹریلیا کی مثال دی۔ ساتھ ہی پی آئی اے کو نیویارک لانے کا وعدہ بھی کیا جو ناممکن نہیں۔ بار بار عمران خان نے لوٹا ہوا مال جیلوں میں بند سیاستدانوں سے واپس لانے کا عزم بھی بتایا۔ یہاں یہ بھی لکھتے چلیں کہ عمران نے واپسی پر نواز شریف اور زرداری کی شکایت کے جواب میں ان کے کمروں سے ایئرکنڈیشن نکلوانے کا بھی وعدہ کیا جس پر پورا ہال زندہ باد کے نعروں سے گونجتا رہا۔
عمران کی یہ تقریر ایک عام تقریر تھی جس میں صرف موجودہ صورتحال سے آگاہی دینا تھی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ضروری تھا۔ پیر کے دن عمران خان صدر ٹرمپ سے ملنے وائٹ ہاﺅس ان کی دعوت پر گئے تو دروازے پر ٹرمپ نے خوش آمدید کیا اور دونوں لیڈر برابر بیٹھے۔ ٹرمپ نے کشمیر کے مسئلے پر ثالث بننے پر رضامندی ظاہر کی۔ ان کے بقول مودی نے ان سے مدد مانگی ہے۔ شروع کی گفتگو میں عمران خان نے یہ کہہ کر صدر ٹرمپ کو اپنا حامی بنالیا کہ افغانستان میں امن صرف بات چیت سے لایا جاسکتا ہے جس کیلئے کام شروع ہوچکا ہے۔ بعد میں پاکستانی صحافیوں نے اپنی اپنی شان میں بڑھکیں بھی ماری ہیں جو سوشل میڈیا پر دیکھی جاسکتی ہیں۔ مثلاً کچھ لوگ عمران کی انگلیوں کا اشارہ سمجھے اور کچھ نہ پھر بھی عافیہ صدیقی کا سوال بھی کردیا اور ان تمام وائٹ ہاﺅس میں ہونے والی کارروائی کے ساتھ باہر شاہد کامریڈ لون رینجر بنے بینر کے ساتھ جدوجہد کرتے نظر آئے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here