ریکوڈک کے پڑوس میں واقعہ ”سینڈک“ کی کہانی، سیاسی شعبدہ بازی، بددیانتی، نااہلی اور ناکامی کی بدترین مثال ہے۔ اس کے پہلے پچیس سالوں پر مشتمل رپورٹ بنانے بیٹھا تو حیرتوں کا جہان مجھ پر کھلتا چلا گیا۔ 1956 ءمیں پاکستان کے جیالوجیکل سروے اور امریکہ کے جیالوجیکل سروے کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس کے تحت پاکستان میں زیرزمین معدنیاتی وسائل کا کھوج لگا کر ان کے نقشے مرتب کرنا مقصود تھا۔ یہ معاہدہ 1970 ءتک چلتا رہا ہے اور اس کے تحت بنائے گئے تمام نقشے اور معدنی وسائل کے بارے میں تمام معلومات امریکہ کی پرنٹنگ پریس نے 1972ءمیں شائع کیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کے ان وسائل کی رپورٹیں کسی یونیورسٹی یا سائنسی تحقیقی ادارے نے شائع نہیں کیں بلکہ امریکہ کے محکمہ داخلہ کی مہر کے ساتھ جاری ہوئیں۔ 20، جنوری 1962ءکو سیندک میں امریکی جیالوجسٹ شمدٹ اور پاکستانی ماہر ارضیات وحید الدین احمد کی سربراہی میں ایک ٹیم وہاں پہنچی اور اس نے سروے کا کام شروع کیا جو 12 نومبر 1962 ءتک جاری رہا اور مارچ 1963 ءمیں رپورٹ شائع کردی گئی۔ اس رپورٹ کا خلاصہ یہ تھا کہ سیندک میں بہت ہی قلیل مقدار میں تانبے اور سونے کی موجودگی کا علم ہوا ہے جو اس بات کا اشارہ کرتا ہے کہ اس پورے علاقے میں کہیں وسیع ذخائر بھی موجود ہیں جو اس عالمی پٹی کے ساتھ منسلک ہو سکتے ہیں جو ہنگری، رومانیہ، بلغاریہ، یونان، ترکی اور پھر ایران کے راستے بلوچستان میں داخل ہوتی ہے جسے تیتھیان خم دار آتش فشانی پٹی کہا جاتا ہے۔ لاکھوں سال پہلے جب ان علاقوں میں آتش فشاں سرد ہوئے تو وہ اپنے اندر پگھلتی ہوئی دھاتوں کے ذخیرے چھوڑ گئے۔ زمین کی بالائی سطح کے نیچے قدرت نے ایسے ہی خزانے اس آتش فشانی عمل سے چھپا رکھے ہوئے ہیں۔ سیندک اس پٹی کی ایک بچھڑی ہوئی شاخ تھی جو قرب و جوار میں اصل خزانوں کا نشان بتاتی تھی۔ رپورٹ شائع ہوکر سرکاری دفاتر کی گرد آلود فائلوں میں پڑی رہی۔ ذوالفقار علی بھٹو ان سیاستدانوں میں سے ایک تھا جسے خبر میں رہنے کا فن آتا تھا اور وہ اس کے لیے خاص محنت کرتا تھا۔ ایک دن اسمبلی میں ایک بوتل میں پٹرول لے کر آگیا کہ یہ دیکھو پاکستان میں ڈھوڈک کے مقام پر تیل نکل آیا ہے۔ اسی طرح جب اسے سیندک کے بارے میں رپورٹ دکھائی گی تو وہ قوم کو سونے کے ذخائر کی خوشخبری دینے اسمبلی میں جا پہنچا۔ یہ ایک چھوٹا سا ذخیرہ تھا لیکن اس کے انتظام و انصرام کے لئے مرکز کے تحت ہزار کلومیٹر دور کراچی میں ایک محکمہ قائم کردیا گیا لیکن سیاست کی گرم بازاری میں ساتھ ساتھ پوری قوم کو یہ خوف بھی دلایا گیا کہ بلوچستان سونے اور چاندی کے ذخائر سے مالا مال ہے اور اس پر قبضہ کرنے کے لئے کیمونسٹ روس، بلوچستان میں قائم عطا اللہ مینگل کی حکومت سے مل کر سازش کر رہا ہے۔ عراق کے سفارت خانے سے اسلحہ نکلا، اکبر بگٹی نے لندن پلان کا بھانڈا پھوڑا، حکومت ختم کر دی گئی، اکبر بگٹی کے زیر سایہ گورنر راج نافذ ہوا اور آرمی ایکشن شروع ہوگیا۔ ادھر سیندک کے نام پر کراچی کے دفتر میں بڑی بڑی تنخواہوں پر ماہرین نوکریاں کرنے لگے۔ سیندک میں زمین ہموار کرکے ایک کچا رن وے بنایا گیا تھا۔ ایک طیارہ کرائے پر لیا جاتا اور افسران وہاں شاہانہ انداز سے اترتے ، اردگرد پہاڑوں کو دیکھ کر واپسی کا سفر اختیار کر لیتے۔ آرمی ایکشن کے ساتھ ساتھ بلوچستان کی سیاست میں جو نفرت پیدا ہوئی اس کی علامتوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ تمام سیاستدان ایک زبان ہو کر یہ نعرہ بلند کرنے لگے کہ بلوچستان میں موجود سونے اور تیل کے ذخائر کو مرکز کے ذریعے پنجابی لوٹنا چاہتے ہیں۔ کوئی بڑے سے بڑا بلوچ یا پشتون لیڈر ایسا نہیں ہوگا جس کی تقریروں سے آپ پنجابی استعمار کے خلاف نفرت نہ نکال سکیں۔ بھٹو رخصت ہوا، ضیاءالحق آگیا۔ ضیاءالحق کا دور بلوچستان کی ترقی و خوشحالی کا دور تھا۔ 1951ءمیں سوئی سے نکلنے والی قدرتی گیس جس سے خود بلوچستان کے شہری کئی سال تک محروم رہے ، پہلی دفعہ 1984ءمیں بلوچستان کے شہریوں کو استعمال کے لیے دی گئی۔ سردترین شہر کوئٹہ اپنی اس نعمت سے رحیم الدین خان کے زمانے میں ہی مستفید ہوا۔ کراچی سے کوئٹہ کی سڑک مکمل ہوئی اور اس پر بجلی کی فراہمی سے باغات لہلہانے لگے۔ چاغی کے راستے میں نوشکی تک اور پشتون علاقوں میں ژوب تک علاقے نیشنل گریڈ سے منسلک ہوگئے۔ اسی دور میں سیندک کی سونے اور تانبے کی اس مائن کے ادارے ریسورس ڈویلپمنٹ کارپوریشن کوبھی بلوچستان حکومت کے حوالے کر دیا گیا اور شہر کے بیچوں بیچ میونسپل کارپوریشن کا دفتر بھی اسے دے دیا گیا۔ یہاں سے اس منصوبے میں قومی ،صوبائی اور علاقائی لوٹ مار کا آغاز ہوا۔ آخری معاہدہ چین کی کمپنی کے ساتھ کیا گیا۔ اس معاہدے کے دو حصے تھے۔ سونا اور تانبا نکال کر اسے ریفائنری تک پہنچانے کی تمام مشینری لگانے کا ذمہ چینیوں کے پاس تھا یعنی کھدائی، پھر اس کے بعد اسے بڑی بڑی مشینوں میں ڈال کر مٹی سے علیحدہ کرنا اور ایک بہت بڑے پگھلانے والے یونٹ (Smelter) میں ڈال کر اس کی بڑی بڑی سلیں تیار کرنا تھا لیکن سول ورکس مرکزی حکومت اور صوبائی حکومت نے کرنے تھے۔ چینی تو اپنا کام کر کے ایک طرف ہوگئے لیکن چونکہ کرپشن اور کک بیک سول ورکس میں ہوتے ہیں اس لیے ان کا دائرہ روز بروز بڑھتا چلا گیا اور ایسے ایسے ٹھیکیدار سامنے آئے جو بعد میں سیاسی منظرنامے پر بھی چمکے۔ تفتان ریلوے سٹیشن سے سیندک صرف ساٹھ کلومیٹر پر واقع ہے وہاں سے مال لانے کےلئے ایک ہی ذریعہ آمد و رفت کافی تھا لیکن کمیشن کی لت میں شاندار سڑک بھی بچھائی گئی اور ریلوے لائن بھی وہاں تک لے جائی گئی۔ تفتان شہر میں رہائشی سہولیات موجود تھیں ، لیکن نوآبادیاتی ذہنیت کے تحت اس چھوٹی سی غیر منافع بخش مائن کے بالکل ساتھ اسلام آباد طرز کی ایک کالونی بنائی گئی۔ ایک ایسی مائن کے قریب جہاں بڑے بڑے پتھروں کو زور دار طریقے سے توڑ کر ریت بنانا تھا۔ پہلے ہی ہفتے ہی جب بڑی بڑی مشینوں میں پتھر کوٹنے کا کام شروع ہوا تو اس کی چھتوں میں دراڑیں آ گئیں۔ لوگوں کی جگہ اب وہاں جنات کا بسیرا ہو گیا۔ اسی کالونی کے لئے جہاں کوئی نہیں رہتا تھا ،تقریباً سو کلو میٹر دورتالاب کے مقام سے چھ کنویں کھود کر پائپ لائن بچھا کر پانی لایا گیا۔ پراجیکٹ کے تحت صرف دس میگا واٹ کے ٹرانسفارمر کی ضرورت تھی لیکن بھلا ہو کمیشن کا کہ 50 میگا واٹ کا ٹرانسفر اس امید پر خریدا گیا کہ ہو سکتا ہے کل یہ ایک بڑا پروجیکٹ بن جائے۔ تفتان میں پورے ملک سے منسلک فون سسٹم موجود تھا اور وہاں سے لائن لی جا سکتی تھی مگر پی ٹی سی ایل سے چھ علیحدہ ٹیلی فون لائنوں کا ایکسچینج لیا گیا جس کی لاگت پر کروڑوں خرچ کیا گیا اور اسے ماہانہ لاکھوں روپے کرایہ دیا گیا۔ گاڑیاں، دفاتر، افسران کی تنخواہیں، غرض ایک چھوٹی سی مائن جس کے بارے میں 1963ءمیں کہہ دیا گیا کہ یہ فائدہ مند پروجیکٹ نہیں، اس پر اتنا قرضہ چڑھا دیا گیا تھا کہ جب 1997ءمیں یہ رپورٹ پیش ہوئی تو کوئی اور راستہ نہیں بچتا تھا کہ چینی کمپنی کو یہ مائن حوالے کر دی جائے تاکہ وہ اپنی لاگت وصول کرسکے اور یہ کام اسی بڑی میٹنگ کے فوراً بعد ہوگیا لیکن ان 29 سالوں میں جو نفرتیں پیدا ہوئیں جو لوٹ مار کی گئی اور جیسے مرکز اور صوبے کے بڑے سیاستدانوں ، بیوروکریٹس اور ٹھیکیداروں نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھویا وہ تکلیف دہ بھی ہے اور حیرت ناک بھی۔ سیندک کے ذخیرے کی کہانی تمام ہوئی۔ واپسی میں ہم دالبدین ایئر پورٹ سے نواز شریف کو رخصت کرنے کے بعد جب بلوچستان حکومت کے طیارے میں واپس لوٹے تو گورنر میاں گل اورنگزیب اور وزیر اعلیٰ اختر مینگل مکمل خاموش تھے اورپھر اس خاموشی میں ایک آفت کا اضافہ ہو گیا کہ بلندی پر اس چھ سیٹوں والے تنگ جہاز کا ایئرکنڈیشنڈ ہوا میں بند ہوگیا ہے اور یوں لگا جیسے ہم ایک قبر میں سفر کر رہے ہوں۔ اس خوفناک سفر سے جیسے ہی چاغی واپس لوٹا تو آسٹریلیا کی کمپنی BHP یعنی بروکن ہل پراپرٹی کی ٹیم ریکوڈک میں کام کے لیے پہنچ چکی تھی۔ اس وقت ایک خاموشی کا عالم تھا لیکن کسے خبر تھی کہ ایک اور ویسی ہی تاریخ مرتب ہونے جا رہی ہے۔ (جاری ہے )
٭٭٭