”وزیراعظم کا دورہ اور قادیانیوں کی یلغار“

0
410

ٹرمپ نے وائٹ ہاو¿س میں مختلف ممالک کے مظلوم اور دکھی لوگوں کو جمع کیا اور ان کی فریاد سنی۔ دنیا بھر سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسے لوگوں کو چنا گیا جو مختلف ممالک میں مذہبی دہشت گردی کا شکار ہیں۔ اکثر مسلم ممالک کے سلیکٹڈ لوگ تھے جو اپنے اوپر ہونے والے مظالم کی روداد سنا کر بادشاہِ وقت کے سامنے فریادی بنے ہوئے تھے۔ پاکستان سے فرار ہونے والا شکور قادیانی، مردود سلمان تاثیر کا بیٹا شان تاثیر، کردوں کی نمائندہ نادیہ مراد سمیت کئی مسلمان ممالک کے ”مظلوم مسلمانوں“ نے اپنی اپنی دکھ بھری داستان ظل الٰہی جناب ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے پیش کی۔ وہاں سب ہی اپنی اپنی فریاد لیکر پہنچے تھے۔ نہیں پہنچ سکا تو مقبوضہ کشمیر کا بینائی سے محروم کیے جانے والا بارہ سالہ لڑکا نہیں پہنچ سکا۔ فلسطین کی مظلوم لڑکی جسے اپاہج کر دیا گیا تھا وہ نہیں پہنچ سکی۔ چین کا ایغور مسلمان جسے مذہبی شناخت مٹانے کا حکم دیا گیا ہے۔ غیر حاضر تھا۔ نیوزی لینڈ میں شہید ہونے والے مسلمانوں کا نمائندہ اور پاکستانی نعیم کی اہلیہ وہاں نہیں پہنچ سکی۔ افغانستان کا بوڑھا جس کے چار بیٹے کارپٹ بمباری میں اڑا دئیے گئے وہ بھی غیر حاضر۔ طارق کی بیوہ جس کے شوہر کو امریکی فوجیوں نے شک کی بنیاد پر گولیوں سے بھون دیا تھا‘ وہ بیوہ غیر حاضر تھی۔ فرعونیت اور پراپیگنڈ وار عروج پر‘ مقصد مسلمان اور اسلام کو بدنام کرنا۔ یا اللہ تو ہی ہدایت دے۔ آمین۔”قادیانی اور دیگر کافروں میں فرق“ جب بھی قادیانیوں کے بائیکاٹ کی بات کی جاتی ہے تو سادہ لوح مسلمان یہ سوال کرتے ہیں کہ ہمیں تسلیم ہے کہ قادیانی کافر ہیں مگر کافر تو اور بھی بہت ہیں جیسے عیسائی، یہودی وغیرہ تو کیاوجہ ہے کہ قادیانیوں کے خلاف منظم جماعتیں کام کرتی ہیں اور قادیانیوں کے بائیکاٹ کی بھرپور دعوت دی جاتی جبکہ دیگر کفار کے خلاف ایسا منظّم کام نہیں اس کا جواب یہ ہے کہ قادیانی کافر اور دیگر کافر کے درمیان فرق ہے کیونکہ کافروں کی بنیادی طور پر تین قسمیں ہیں: -1 مطلق کافر‘ -2 مرتد کافر‘ -3 زندیق کافر۔ مطلق کافر اس کافر کوکہاجاتاہے جو اپنی نسبت اپنے مذہب کی طرف کرتاہو اور مسلمانوں کی نسبت اسلام کی طرف جیسے عیسائی خودکو عیسائی اور یہودی خود کو یہودی کہتاہے جبکہ ہماری نسبت اسلام کی طرف کرتے ہوئے ہمیں مسلمان کہتاہے۔ مرتد کافر اس کافر کو کہتے ہیں جو پہلے مسلمان ہو اور پھر اسلام چھوڑکرکسی اور مذہب کو قبول کرلے اور اپنی نسبت اسی نئے مذہب کی طرف کرنے لگے جیسے خدانخواستہ کوئی مسلمان عیسائی ہو اور خود کو عیسائی کہنے لگے۔ زندیق اس کافرکو کہتے ہیں جو ہوتو پکا کافر لیکن خود کو مسلمان کہے اور مسلمانوں کو کافر کہے۔ شریعت اسلامیہ میں مطلق کافر سے معاملات کرنا جائز و مباح ہے لیکن مرتد اور زندیق کافر سے طرح کامعاملہ اور تعلق رکھنا حرام اور ناجائز ہے۔ یادرکھیے! قادیانی عام کافر نہیں بلکہ ذندیق کافر ہیں کیونکہ اپنے کفر کو اسلام اور اسلام کو کفر جبکہ خود کو مسلمان اور مسلمان کو کافر سمجھتے ہیں۔ اسی وجہ سے ملت اسلامیہ کے تمام مسالک کے (دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث) مفتیان کرام نے یہ فتویٰ دیاہے کہ: قادیانی ذندیق، کافر اور ملحد ہیں اس لیے مرزائیوں کے ساتھ معاشی ومعاشرتی تعلقات مثل خوشی غمی میں شرکت، سلام و کلام ناطہ، اٹھنا بیٹھنا، کاروبار، ملازمت ان کی مصنوعات کی خرید و فروخت سب حرام ہے۔ ان سے تعلق رکھنے والا شخص گمراہ، ظالم اور مستحق عذاب جہنم ہے اور جو شخص مرزائیوں کو مسلمان سمجھے یا ان مسلمانوں سے اچھا کہے وہ خود مرزائیوں سے بدترین کافر ہے۔
نوٹ: مرزائیوں کے بائیکاٹ کے متعلق مذکورہ فتوی پر مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے عصر حاضر کے تقریباً 1400 جید علماءکرام سے تائید لی جاچکی ہے جنہوں نے اس فتویٰ سے مکمل اتفاق کیاہے۔ جنرل ضیاءالحق کا ظالمانہ دور۔ وہ دور جب پاکستان میں تمام بھارتی میڈیا پہ پابندی تھی۔ ٹی وی پہ ایک چینل ہوتا تھا اور نیوز کاسٹر سرپہ دوپٹہ رکھ کہ آتی تھیں۔ ٹی وی نشریات شام چار بجے سے رات گیارہ بجے تک ہوتی۔ نشریات کا آغاز اور اختتام تلاوت، حمد اور نعت پہ ہوتا۔ چوری ، زنا کی بہت سخت سزائیں تھیں اور ملک میں مکمل امن و امان تھا۔ ایک روپے کا بن کباب ملتا تھا اور دس روپے کا تو بس ایسا بہترین برگر ملتا تھا کہ کھاتے رہ جاو¿۔ تندوری روٹی آٹھ آنے کی ملتی تھی اور دس روپے میں ایک مزدور آرام سے دو وقت کا کھانا کھا لیتا تھا۔ تمام سیاسی پارٹیوں پہ پابندی تھی اور عوام کو گمراہ کرنے والے سیاستدان جیل میں تھے۔ سرکاری سکول فیس 23 روپے ماہانہ تھی اور پرائیوٹ سکول فیس سو روپے ماہانہ۔ سکول میں پڑھایا جانے والا نصاب سخت جانچ پڑتال سے گزرتا اور اسلام مخالف اور پاکستان مخالف کوئی چیز بچوں کو نہ پڑھائی جاتی۔ کالج میں ایک مہینہ فوجی ٹریننگ ہوتی جس میں حصہ لینے والوں کو بیس اضافی نمبر ملتے۔ پاکستانی برانڈ کمپنیوں کو تحفظ حاصل تھا۔ ملک کی اپنی پولکا آئس کریم، آر سی کولا ، بناکا ٹوتھ پیسٹ، فوجی کارن فلیکس‘ ناصر صدیق گلاس ، رہبر واٹر کولر ، پرافیشنٹ موٹر کار، یعصوب ٹرک ، پاکستان میں عام نظر آتے۔ دور دراز گاو¿ں میں مسجد فجر اور ظہر کے درمیان سکول کے طور پہ استعمال ہوتی۔ تعلیم بالغاں کیلئے نئی روشنی سکول شام کو کھلتے پھر 1988 میں جنرل ضیاءالحق ایک پراسرار حادثے میں شہید ہو گئے اور بینظیر بھٹو کا دور شروع ہوا۔ سب سے پہلے بینظیر نے ضیاءالحق کی تمام سکیمیں بند کیں جن میں مسجد سکول اور نئی روشنی سکول شامل تھے پھر زنا کی سزا حدود آرڈیننس ختم کرا کہ ختم کر دی پھر پاکستان میں زنا عام ہونا شروع ہوا اور تعلیم مہنگی ہوتی گئی اور وہ سب کچھ ہوتا گیا کہ اللہ کی پناہ۔ جنرل ضیاءایک ملٹری ڈکٹیٹر تھا مگر ساری دنیا کا کفر اس سے کانپتا تھا۔ اپنے ملک کے سارے شیاطین اس کے دور حکومت میں زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔ ہمیں فخر ہے آپ پہ جنرل ضیاءالحق شہید‘ اللہ آپکو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔
امریکہ میں پاکستانی قوم نے عمران کا والہانہ انداز میں استقبال کیا۔ قوم کو عمران میں ترقی کی کرن نظر آتی ہے مگر مہنگائی اور موجودہ ٹیم کی غیرمستحکم معاشی پالیسیوں نے بزنس کمیونٹی کو پریشان کر دیا ہے۔ قوم عمران خان کو سپورٹ کرتی ہے کیونکہ اس نے کرپشن فری پاکستان کا نعرہ لگایا ہے لیکن اگر پاکستان کے آئین میں درج رد قادیانیت کی کسی بھی شق ساتھ کھیلنے کی کوشش کی گئی تو قوم عمران خان کو معاف نہیں کرے گی۔ حرمت رسول پر قوم کبھی سمجھوتا نہیں کرئے گی۔ وزیراعظم ٹرمپ سے ملاقات میں انتہائی پراعتماد نظر آئے، کشمیر پر ٹرمپ کی طرف سے ثالثی کی پیش کش کشمیریوں کے موقف کی تائید ہے۔ جرا¿ت مند لیڈر شپ اپنے اصولی موقف سے قوم کا مورال بلند کرتی ہے جس کے اثرات دوسری دنیا پر بھی پڑتے ہیں۔ عمران خان کا پاکستانی کمیونٹی کے بائیس ہزار کے بڑے اجتماع کو خطاب اپنی نوعیت کا غیر معمولی واقعہ ہے جس نے ایک تاریخ رقم کی ہے۔ افسوس ہوا کہ وزیراعظم نے پی ٹی آئی کو ایڈریس کیا نہ کہ پاکستانی قوم کو۔ وزیراعظم کو اب دھرنوں والی ذہنیت سے باہر نکلنا ہوگا اور انہیں اب یقین کرنا ہوگا کہ ان کو وزیراعظم بنا دیا گیا ہے۔ وزیراعظم پاکستان ہو یا صدر مملکت ، بیرون ملک ان کے خلاف مظاہرے اچھی روایت نہیں۔ نواز شریف کی یو این آمد پر پی ٹی آئی نے بڑے احتجاجی مظاہرے کا اہتمام کیا تھا۔ آج مسلم لیگ ن نے عمران خان کے خلاف کار ریلی نکالی اور وائٹ ہاو¿س کے سامنے احتجاج کیا۔ پی ٹی آئی کے فالورز بھی عمران خان کو سپورٹ کرنے کے لئے موجود تھے۔ ایک دوسرے کے خلاف نعرہ بازی اور معمولی جھڑپ کے بعد پولیس نے دونوں گروپس کووہاں سے ہٹا دیا۔ ہمیں اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ اعلیٰ ظرفی کیا ہوتی ہے؟ آئیے تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں۔
سید ابو الاعلی مودودی ایوب خان کے سخت ناقد تھے۔ علاج کی غرض سے امریکہ پہنچے، وہاں کسی نے ایوب خان کے بارے میں کوئی سوال پوچھ لیا۔ سید مودودی نے جواب دیا ان سے میرے بہت اختلافات ہیں مگر ایک واقعہ ہو گیا ہے‘ وہ اختلافات ایک پوٹلی میں بندھے تھے اور پوٹلی میں پاکستان ایئرپورٹ پر چھوڑ آیا ہوں۔ یہاں امریکہ میں اب میں ایک پاکستانی ہوں وہ پاکستان کے صدر ہیں اور اختلافات کی پوٹلی پیچھے رہ گئی ہے۔ ایوب خان سے اپوزیشن کو شدید اختلافات تھے لیکن ایوب خان 65ءکی جنگ کے بعد جب تاشقند گئے تو حزب اختلاف انہیں الوداع کہنے ایئر پورٹ پر موجود تھی کیونکہ اب وہ بیرون ملک پاکستان کی نمائندگی کرنے جا رہے تھے۔
عرض مدعا صرف یہ ہے کہ جب آپ بیرون ملک کھڑے ہوں، پاکستان کے وزیراعظم کے طور پر کھڑے ہوں اور سبز ہلالی پرچم کے سائے میں کھڑے ہوں تو آپ کو ایک سیاسی جماعت کے رہنما کے طور پر نہیں، صرف وزیراعظم پاکستان کے طور پر بات کرنی چاہئے۔ قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی جس کا وزیراعظم نے قوم سے وعدہ کیا تھا، کو بھول جانا سمجھ سے بالا ہے۔ ٹرمپ کا خود ساختہ ایڈوائزر ”ساجد تارڑ“ پورے Scenario میں کہیں نظر نہیں آیا۔ گزشتہ سال جب اس نے پاکستان کے خلاف بکواس کی تھی تو لوگوں میں اس کے خلاف کافی غم وغصہ پایا گیا۔ جارج بش کے دور میں بھی ہیوسٹن کی صدیقی فیملی اس کے ساتھ کھڑی ہوئی تھی۔ اندھوں میں کانا راجہ کے مصداق، مسلمانوں میں یہی ایک پاکستانی تھا جو ٹرمپ کو کھل کر سپورٹ کر رہا تھا جس کی وجہ کھوٹا سکہ اپنے آپ کو ٹرمپ کا ایڈوائزر سمجھ بیٹھا۔ سارے سین سے غائب تھا۔ بہرحال ٹرمپ نے پاکستان کی اہمیت اور قوم کی تعریف کی جو خوش آئند ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here