قتل کی دھمکیاں اور وکیل اہل بیت ؑ کی استقامت!!!

0
498
Dr-sakhawat-hussain-sindralvi
ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

قارئین! 12 جولائی بروز جمعہ صبح ساڑھے دس بجے سے میرے فون پر قتل کی دھمکیاں موصول ہونا شروع ہو گئی ہیں جو تا دم تحریر جاری و ساری ہیں۔ دھمکیوں کی وجوہات لکھنے سے پہلے دھمکیاں دینے والوں کو واضح کر دوں کہ امریکہ میں قانون کی سختی کے باعث ان کی گیڈر بھبکیوں کو عملی جامہ پہنانا ان کیلئے ممکن نہ ہوگا۔ شیخ چلی کے خواب دیکھنے اور خیالی پلاﺅ پکانے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ میں اپنے ان کرم فرماﺅں کو دعوت دیتا ہوں کہ میں حج بیت اللہ کی ادائیگی کے بعد 17 اگست کو اسلام آباد ایئر پورٹ پر اترتا ہوں۔ فلائٹ نمبر‘ فلائٹ کا وقت اور اپنی آئی ٹرنری سوشل میڈیا پر ڈالتا ہوں اور دھمکیاں دینے والوں کے فون نمبرز پر بھی بھیجتا ہوں جس میں واپسی کی تاریخ بھی لکھی ہوئی ہوگئی۔ وہ اپنا یہ شوق وہاں پورا کرلیں۔ میں نے رمضان المبارک کی مناجات امیرالمومنینؑ اور سحر کے وظائف میں ہمیشہ اپنے لئے شہادت کی دعا کی ہے اور اس کالم کے ذریعہ اللہ سے دعا گو ہوں کہ محمد و آلؑ محمد کے طفیل میں مجھے بستر مرگ پر موت دینے کی بجائے شہادت کے منصب پر فائر فرمائے۔ میں نے اپنی ساری زندگی کسی ملک یا اتھارٹی کے سامنے کبھی کسی کی شکایت نہیں کی لہٰذا میں نے مورخہ 15 جولائی 2019ءکو فجر کی نماز سے پہلے اپنے تمام پیغامات ڈیلیٹ کردے تاکہ اپنا مقدمہ دنیاوی عدالتوں کی بجائے اللہ کی عدالت اولیاءمیں دائر کروں۔ دھمکیاں دینے والے میرے کرم فرما یہ شعر ذہن میں رکھیں!
جزا و سزا فقط روز حشر پر موقوف نہیں
زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے
اس مختصر وضاحت کے بعد اپنے قارئین کیلئے میں واضح کردینا چاہتا ہوں کہ لڑکپن سے آج تک شائستگی‘ خوش اخلاقی‘ شرافت‘ دیانت‘ غیرت‘ حمیت‘ احترام اور عفو و درگزر کو شیوہ بنا کر زندگی گزاری ہے اور انشاءاللہ تادم آخر اسے ہی شعار بناﺅں گا تاکہ میری رگوں میں جو علمدار کربلاؑ شہنشاہ وفا کا خون ہے اس کی لاج رکھ سکوں۔میرے کرم فرما ذہن میں رکھیں کہ اس سے پیشتر سپاہ صحابہ‘ لشکر جھنگوی‘ طالبان‘ القاعدہ‘ حرکتہ الانصار اور داعش کی قتل کی دھمکیاں اس فقیر اہل بیتؑ کو بلک (کثرت) میں مل چکی ہیں بلکہ پہلے دھمکی مجھے اس وقت ملی تھی جب میری داڑھی بھی نہیں آئی تھی۔ اس وقت ایک گستاخ اہل بیتؑ اور دشمن مولائے کائنات نے سکول سے واپسی پر میرے سینے پر رائفل رکھ کر ٹریگر دبا دیا تھا۔ اس وقت کا میرا بچپن کا دوست ملازم حسین غوری جو اس وقت فوج کا آفیسر ہے میرے ساتھ تھا‘ حملہ آور الحمدللہ گر گیا تھا اور میں نے اس وقت مولا علیؑ کا نعرہ لگایا تھا جو میری ماں نے گھٹی میں پلایا ہے۔ چلی ہوئی گولی کے سامنے یا موت کو سامنے دیکھ کر نعرہ لگانا اور ہے اور ٹکوں میں بک کر اور دل میں منافقت رکھ کر نعرے لگانا اور ہے۔میرے کرم فرما نوٹ کرلیں۔ سپاہ صحابہ نے اربعین کے دن 2003ءمیں میری گاڑی پر 56 گولیاں برسائیں۔ میں سلگتی آگ میں نہ ڈرا۔ دو برسٹ لگنے کے بعد حملہ آور پر میرے محافظوں نے دو گھنٹے تک فائرنگ کی لیکن کوئی بزدل پھر سامنے نہ آیا۔ مجھے ایک بار ایک دہشت گرد جماعت نے اغواءکی۔ میں نے اس وقت مولا علیؑ سے برا¿ت کا اظہار نہ کیا۔ انہوں نے میرا سر پھاڑ دیا اور میں نے پھٹے ہوئے سر کے ساتھ آٹھ دہشت گردوں کو زخمی کیا جس کی پولیس رپورٹ موجود ہے۔ اعظم طارق نے مجھے ڈائریکٹ فون کرکے دھمکی دی۔ میں اس سے نہ ڈرا۔ میں نے برستی ہوئی گولیوں میں مولا علیؑ کے فضائل پڑھے ہیں اور امام حسینؑ کی مجالس پڑھی ہیں۔ میں جب زینبیہ لاہور سے مجالس کیلئے نکلا کرتا تھا تو اپنے ملازموں کو روزانہ کی بنیاد پر تنخواہ دیتا تھا کہ نہیں معلوم واپس آنا بھی ہے یا نہیں۔ 80ءکی دہائی میں مرکزی امام بارگاہ اسلام آباد پر جب برقعہ پوش مولوی عبدالعزیز اور مولوی عبدالرشید کے باپ کے غنڈوں نے حملہ کیا تو میں نے اور میرے دوست نے جو شاید نام لینے پر راضی نہ ہوں پوری رات امام بارگاہ کی چھت پر کھڑے ہوکر حملہ آوروں کو امام بارگاہ اور علم کی بے حرمتی سے دور کھا۔ مجھ پر 1996ءمیں شاہ پور صدر تھانے کے سامنے ایئرکنڈیشنڈ کوچ کے رکنے پر ریاض بسرا نے حملہ کیا تو میں نے چلتی کوچ سے اسے نیچے گرا دیا اور میں نہ ڈرا جبکہ میں خالی ہاتھ تھا اور وہ اسلحہ سے لیس تھا۔ مجھے سپاہ صحابہ کے صدر نے ڈائریکٹ آمنے سامنے دھمکی دی اور خطوط لکھوائے۔ میرے پائے استقامت میں لرزش نہ آئی۔ جنرل ضیاء1979ءسے لے کر 1988ءتک ایڑی چوٹی کا زور لگا کر مجھے گرفتار کرانے کی کوشش کرتا رہا۔ نہ مجھے جھکا سکا نہ خرید سکا اور نہ گرفتار کراسکتا۔ حق نواز جھنگوی‘ ضیا فاروقی‘ قاسمی‘ اعظم طارق‘ علی شیر حیدری جیسے دہشت گرد مجھے قتل کرانے کی حسرتیں لے کر قبروں میں پہنچ گئے۔ مگر غلام علیؑ آج بھی گلی گلی میں علیؑ علیؑ کروا رہا ہے اور خادم منبر حسینیؑ قریہ قریہ بستی بستی عزاداری حسینؑ‘ ماتم مظلوم کربلاؑ کا حصہ بنا ہوا ہے۔ تا قیامت میرے مولا علیؑ گونجتا رہے اور صدائے ماتم حسینؑ بلند رہے۔ میں اپنے کرم فرماﺅں کو یہ بتا دوں کہ میں نے زندگی بھر کسی ملک میں نہ قانون ہاتھ میں لیا ہے اور نہ اپنے احباب کو قانون ہاتھ میں لینے کا سبق دیا۔ نہ ہی اپنے تعلقات کو کسی مسلمان کو اذیت دینے کیلئے استعمال کیا بلکہ جتنا ہوسکا اپنے دوستوں اور دشمنوں کی بھی مدد کی۔ اسی لئے جو کچھ کمایا بچوں کی پرورش پر‘ دین کی خدمت پر اور غریب پروری پر خرچ کردیا‘ نہ کوٹھیاں بنائیں‘ نہ محل‘ نہ بینک بیلنس رکھے‘ نہ سیونگ کی۔ تادم تحریر مزدوری کرتا ہوں اور انشاءاللہ کرتا رہوں گا۔ اسی لئے نہ کبھی جھکا ہوں‘ نہ بکا ہوں‘ نہ سہما ہوں اور نہ ہی بکوں گا‘ جھکوں گا نہ ڈروں گا اور نہ سہموں گا۔
یہ تحریر میں کسی رعب یا دبدبہ یا کسی دھونس کی خاطر نہیں لکھ رہا بلکہ اپنے غافلین مخالفیفن کی آنکھیں کھولنے کیلئے لکھ رہا ہوں۔ یہ بھی واضح رہے موت اور حیات اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ عزت اور ذلت بھی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ یہ بھی واضح رہے میں نے عمر بھر صلح کروائی ہیں جنگیں نہیں کروائیں اور ایسے بیسیوں علاقے ہیں جہاں میری وجہ سے صلح ہوئی اور لوگ شاد و آباد ہیں۔ میرے مخالف یا مجھے قتل کی دھمکیاں دینے والے مطمئن رہیں ان پر کسی دنیاوی عدالت میں مقدمہ نہیں ہوگا‘ نہ انتقام پروری میرا شیوہ ہے۔ میں دین کا ادنیٰ سا خادم ہوں اور ذوات محمد و آلؑ محمد کا ادنیٰ سا نوکر ہوں۔ حوزہ علمیہ نجف اور حوزہ علمیہ قم۔ مراجع کرام‘ رہبر معظم‘ علمائے کرام اور دنیا کے ہر شریف انسان کا تائید یافتہ ہوں۔ چاہے وہ شریف میرے مسلک کے ہیں یا نہیں۔
اب میں اس مقصد کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرا رہا ہوں کہ یہ دھمکیاں دینے والے کون ہیں؟ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟ اور مجھے سے ان کو کیا تکلیف ہے؟ کچھ عرصہ سے مملکت خداداد پاکستان میں شیعیان علیؑ کو قادیانیوں کی طرح غیر مسلم قرار دلوانے کیلئے بیرون ممالک اور ایجنسیوں کے پروردہ اور تائید یافتہ بدعقیدتی کا ایک سیلاب لے آئے ہیں۔ وہ جان بوجھ کر مولائے کائنات حضرت علیؑ کو اللہ‘ خالق‘ رازق‘ رب‘ زندہ کرنے والا‘ مارنے والے کہہ رہے ہیں اور کہلوا رہے ہیں حالانکہ شیعیانؑ کی نظر میں قادر مطلق بھی اللہ ہے‘ معبود‘ خالق‘ رازق‘ رب مالک حقیقی‘ زندہ کرنے والا مارنے والا بھی وہی ہے۔ حضرت علیؑ کو ہم شیعیان علیؑ اللہ اور رسول کے بعد بشمول تمام انبیاءسے افضل مانتے ہیں۔ سیلاب کا یہ ریلا سونامی بن کر اب امریکہ میں داخل ہوچکا ہے۔ میں کیونکہ لڑکپن سے حق گو رہا ہوں۔ اس لئے میں نے ڈٹ کر مخالفت کی کہ امریکہ کے مسلمانوں میں اپنے مذہب کا امیج کبھی خراب نہیں ہونے دوں گا۔ اس لئے کہ میں نے بڑی مشکل سے امریکہ میں مقیم مسلمانوں کے تمام فرقوں میں 29 سال کی محنت سے غلط تاثرات ختم کئے ہیں۔ آج پورے امریکہ میں کوئی کسی شیعہ کو کافر نہیں کہتا اور نہ کسی مسجد میں شیعہ کے داخلے پر پابندی ہے اور نہ مولا علیؑ کے خلاف یا قیام امام حسینؑ کے خلاف لکھتا یا بولتا ہے۔ اب امریکہ میں عاشور کے روز شادیاں بھی نہیں ہوتی۔ مملکت خداداد پاکستان اور برطانیہ کی طرح امریکہ کے ڈاﺅن ٹاﺅنز میں عزاداران حسینؑ پر حملے نہیں ہوتے بلکہ عاشورہ کے جلوس میں کثرت سے اہل سنت شریک ہوتے ہیں۔ میلاد کے جلوس ہزاروں عاشقان رسول کو لے کر المہدیؑ سنٹر آتا ہے جو قتل کی دھمکیاں دینے والوں کیلئے موت ہے۔ میں قتل کی دھمکیاں دینے والوں سے کہوں گا کہ بجائے پیغام بھیجنے کہ توبہ کرلیں۔ اپنی فکر درست کرلیں۔ فردائے قیامت اللہ اور رسول کے سامنے شرمندہ نہ ہوں۔ اپنی عاقبت ‘خراب نہ کریں۔ مجھ جیسا فقیر قتل ہو بھی جائے تو محبان علیؑ اور عزاداران حسینؑ کا قافل رکے گا یا نہیں۔ بدعقیدتی نہیں پھیلنے دی جائے گی۔ شیعہ قوم کا بچہ بچہ سخاوت حسین بن جائے گا۔
دھمکیاں دینے والوں کو ایک اور تکلیف یہ بھی ہے کہ رہبر معظم آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامہ ای مدظلہ العالی‘ مرجع اعلیٰ آیت اذللہ العظمیٰ سید علی سیستانی دام ظلہ‘ مرجع عالی قدر آیت اللہ العظمیٰ حافظ ظشیخ بشیر حسین نجفی مدظلہ العالیٰ کی کاوشوں سے سیدہ زینبؑ کا روضہ آزاد ہوگیا۔ پورا عراق آزاد ہوگیا۔ داعش تباہ و برباد ہوگئی۔ القاعدہ اور طالبان کا نام و نشان مٹ گیا۔ سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کو منہ چھپانے کی جگہ نہیں مل رہی جس کی وجہ سے رہبر معظم اور مرجعیت کے خلاف جو مہم شروع کی گئی ہے وہ امریکہ میں اس فقیر کی وجہ سے کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اس لئے مجھے راستے سے ہٹانے کی سبیلیں کی جارہی ہیں۔ الحمدللہ میں ہمیشہ سے فکر امام خمینیؒ‘ فکر رہبر اور افکار مراجع کا پاسبان اور امین رہا ہوں اور رہوں گا۔ میں برداشت نہیں کرتا کہ سادات کرام‘ مراجع عظام‘ علمائے الام‘ خدمت گزاران مکتب اہل بیتؑ اور صحیح العقیدہ شرفاءکو ناموس کی گالیاں دی جائیں یا ان کخلاف کارٹون چھاپے جائیں۔ الحمدللہ امریکہ میں تکفیری مقصرین‘ غالیوں‘ دشمنان انقلاب مرجعیت کے سامنے ایک سیسہ پلائی دیوار ہوں۔ میری اس تحریر سے یہ تاثر نہ لیا جائے کہ میں اکیلا یہ کام کررہا ہوں۔ مجھ سے بہتر انداز میں میرے بزرگ‘ بھائی‘ شاگرد‘ برخوردار یہ خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ میں ذرا سا الم نشرح ہوگیا ہوں جس وجہ سے یہ گروہ سمجھ رہا ہے کہ ان کی مخالفت کرنے والا صرف میں ہوں‘ میری اس تحریر کے بعد ان کو آٹے دال کا بھاﺅ معلوم ہوجائے گا۔
میری یہ تحریر خدانخواستہ تقسیم در تقسیم کرنے کیلئے نہایں ہے بلکہ تنبیہ کیلئے ہے‘ مجھے دھمکیاں دینے والے یا میرے گنے چنے بہت ہی مختصر مخالفین بدعقیدتی سے توبہ کرلیں اور مرجعیت کے نظام کی توہین سے باز آجائیں تو میں ان کی جوتیاں جوڑنے کو بھی تیا ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ میرے بھائی اور میری قوم کے بچے جہنم کا ایندھن بن جھائیں۔ میں نے جو کچھ دین پڑھا ہے‘ پڑھایا ہے اس سے یہی سیکھا ہے اگر میرے مخالفین توبہ نہ کرنا چاہیں اور ہٹ دھرمی پر ڈٹے رہنے کے خواہش مند ہوں تو اپنے ان سارے نام نہاد خطباءکو میرے مقابلے میں مناظرے میں لانا چاہیں تو میں حج کے بعد پاکستان کے کسی بھی شہر میں اس کیلئے تیار ہوں۔ میں ایک شخص بھی ساتھ نہیں لاﺅں گا۔ وہ اپنی پوری گینگ لے کر آئیں۔ مناظرہ ٹی وی پر ڈائریکٹ نشر ہو تاکہ سب کیلئے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔
میں اس تحریر کے ساتھ اپنا فون نمبر‘ ای میل اور ایڈریس لکھ رہا ہوں تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے یہ تحریر کسی اور نہ لکھی ہے یا لکھوائی گئی ہے یا لکھنے والے کوئی خوف ڈر ہے۔ ڈر ہے تو اللہ کا‘ سرخرو ہونا ہے تو محمد و آلؑ محمد کے سامنے۔ نہ قوم سے چندہ لینا ہے نہ قوم میں الیکشن لڑنا ہے نہ حمایت کی خواہش ہے نہ مخالفت کی پروا کیونکہ میری رگوں میں مولا علیؑ کا خون ہے میں اپنے جد اعلیٰ کے مسلک کے ساتھ خیانت برداشت نہیں کروں گا۔ میری ہڈی‘ پسلیاں‘ گوشت‘ پوست سہم امامؑ سے بنا ہے اس لئے میں امام زمانہؑ کو پیش نظر یہ تحریر لکھ رہا ہوں۔ اللہ سے دعا گو ہے کہ میری اس تحریر کو تبلیغ اسلام کا ذریعہ بنائے اور حفاظت شریعت محمدیہ‘ فروغ ولایت علویہ نشرو اشاعت مودت اہل بیتؑ اور خوشنودی محمد و آلؑ خصوصاً امام زمانہؑ کے قلب مقدس کی خوشحالی کا ذریعہ قرار پائے۔ مجھے اس موقع پر اپنے ناقدین کی انگشت ارائیوں اور اپنے کچھ مصلحت پسند دوستوں کی خاموشی پر اپنے بزرگ رشتہ دار ملک احمد ندیم قاسمی کا شعر یاد آرہا ہے۔
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات ہے کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
نیز فیض احمد فیض کا ایک شعر بار بار یاد آرہا ہے
کرو کج جبین پر سر کفن میرے قاتلوں کو گماں نہ ہو
کہ غرور عشق کا بانکپن پس مرگ ہم نے بھلا دیا
بلکہ اختتام مضمون پر اپنے بزرگ حضرت راجہ عبدالغفور نظامی کی مطبوعہ کتاب سے وہ نظم بھی یاد آگئی جس میں مرحوم نے فرمایا تھا
آﺅ اے سرگودھے والو!
میرا جشن مرگ مناﺅ
نہ معلوم تحریر روکتے روکتے یہ شعر کیوں بار بار ذہن میں آرہا ہے
تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کیلئے
اگر مثنوی ہفتاد مند ہونے خدشہ نہ ہوتا تو مشتی ازخلوارے کی بجائے دیوان سندرال لکھتا۔ جس میں اور وجوہات بھی درج کی جاتیں۔ حسد اور تعصب کا بھی ذکر کیا جاتا بعض جبہ و دستار اور کلہ برداروں کے بھی اشارے آ جاتے مگر نہ اتنا وقت ہے لکھنے والے کے پاس نہ ہی اتنا وقت کے پڑھنے والوں کے پاس‘ یہی ٹوٹے پھوٹے الفاظ قبول کیجئے۔ یار زندہ صحبت باقی۔ بقول ڈاکٹر منظور نقی رضوی
اس خط کو کھولئے گا ذرا دیکھ بھال کے
کاغذ پر رکھ دیا ہے کلیجہ نکال کے
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here