نسل بچاﺅ مہم

0
317
Dr-sakhawat-hussain-sindralvi
ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

نارتھ امریکہ میں مقیم ہمارے ہم وطنوں نے یہاں کی رنگینیاں دیکھ لیں، پیسہ کما لیا، گلچھرے اڑا لئے۔ دعوتیں اڑا چکے، سوشیالوجی کر چکے، آﺅتنگ کر لیں، سیر سپاٹے کر چکے، ویکسینیشن گزار چکے، لائف انجوائے کر چکے، مرد اسٹائل بنا چکے اور خواتین فیشن کر چکیں۔ بچوں کو پال چکے، اپنی اولادوں کی خوبصورت بہاریں دیکھ چکے۔ دنیاوی رعنائیاں میں گم سم اپنی شناختوں کو رہن چکے۔ جوانیوں کی بہاروں کو بڑھاپے کی خزاﺅں کی نذر کر چکے۔ غربت کو امارتوں میں بدل چکے۔ صحتوں کو بیماریوں میں تبدیل کر چکے۔ حالات کی چرہستیوں سے کمریں خم کر چکے۔ ہٹے کٹے آکر تجربہ گاہوں میں تختہ مشق ہو چکے۔ نوابوں کی طرح طرز حیات گزارنے والے نوکروں غلاموں کی طرح رہن سہن رکھ چکے۔ مالکانہ گھروں سے نکل کر بنک کے گھروں میں قیام پذیر ہو چکے۔ اپنی گاڑیوں کی بجائے سود کی گاڑیوں میں سفر پر مجبور ہو چکے۔ ان ممالک کی اعلیٰ مراعات سے بہرہ مند ہو چکے۔ اولادوں کو اعلیٰ دنیاوی تعلیم دلا چکے۔ کھانے پینے کی حسرتیں پوری ہو چکے۔ دیار غیر کے مزے لوٹ چکے۔ اب نہیں ایک فکر دامن گیر ہو رہی ہے کہ انہوں نے جنسیات کے سمندر میں ڈوبتی نسل کو زہد و تقویٰ کی ناﺅ نہیں بخشی۔ انہوں نے فلموں ،گانوں کے مقابلے کیلئے اپنی نسل کو قرآن و حدیث کا شیلٹر نہیں دیا۔ انہوں نے گمراہی کے تند و تیز آندھیوں کیلئے ہدایت کی جھونپڑی تک نہیں بنائی۔ انہوں نے غیروں کی رونقوں کے سامنے غیرت و حمیت کے بازار نہیں سجائے، منشیات کے دھت اندھیروں عشق خدا اور رسولﷺ کے دیپ نہیں جلائے ،انہوں نے لاکھوں ڈالر اپنے بچوں کی دنیاوی تعلیم پر لگائے مگر سینکڑوں تعلیم قرآن پر خرچ نہ کئے۔ انہوں نے خود انگریزی سیکھنے کی غرض سے اولادوں کو مادری زبان کی لطافتوں سے محروم کر دیا۔
ابتداءمیں انہوں نے یہاں کے ماحول کو سمجھا نہ تھا وہ یہ نہ توقع کر رہے تھے کہ چاند جیسی اولادیں زلف اغیار میں پھنس جائیں گی جن کے بول و براز صاف کر کے پالا تھا وہ صرف اپنی جسمانی ضرورتوں کے باعث آنکھیں ماتھے پر رکھ لیں گی۔ ہمارے ہم وطنوں نے سوچا نہ تھا دنیا کی خاطر اولادیں دین تو کیا خاندان کلچر والدین بہن بھائی اور رشتہ داروں کو خیر آباد کر دینگی۔ انہیں کیا خبر تھی جس ملک میں وہ غربت دور کرنے آئے تھے وہاں اپنی اولاد کو ہی پانے کیلئے ٹھوکریں کھائیں گے۔
اگر کوئی شخص تمام کام کاج چھوڑ کر ایک دفتر کھول کر بیٹھ کر صرف ہم وطنوں کو یہ بتاتا رہے کہ اولادیں کیسے سنوریں گی؟ ان کو راہ راست پر لانے کیلئے کیا ذرائع و وسائل ہیں؟ جوان کیسے شادیاں کرینگے؟ خدانخواستہ منشیات و جنسیات میں پڑی نسل کو ان عادت سے کسیے دور کیا جائےگا؟ کونسا طریقہ اختیار کیا جائے کہ اولادیں برہنگی کی بجائے ستر پوشی کو ترجیح دیں؟ بے نمازی کی بجائے ادائیگی نماز کے عادی بنیں؟ فلمیں ڈرامے دیکھنے کی بجائے قرآن و حدیث دیکھیں سنیں۔ کیا کیا جائے کہ والدین کا احترام کریں؟ کیسے انہیں مذہب کا پابند بنایا جائے؟ کیسے انہیں خونی رشتہ داروں کے قریب کیا جائے؟ کیونکہ ان کے دل میں مادر وطن کی محبت ڈالی جائے؟ تو ایسا شخص ایک ڈاکٹر جتنی کمائی صرف رضا کارانہ خدمت کے عوض ہونے والی خدمت سے کر سکتا ہے۔
میں نے امریکہ میں اپنے 26 سالہ قیام کے دوران جو بلنڈر دیکھے ہیں جو جو انہونیاں دیکھی ہیں جو جو ہم وطنوں کی آپ بیتیاں دیکھی ہیں جو نالے سنے ہیں جو آہیں فریادیں سنی ہیں جو تماشے دیکھے ہیں جو جتن دیکھے ہیں اگر میں صرف انہی کو سپرد قرطاس کر دوں تو میرا سخاوت نامہ قدرت اللہ شہاب کے شہاب نامے اور ابن بطوطہ کے سفر نامے کو کراس کر جائےگا۔ میں نے نسل بچانے کیلئے 1000 صفحات پر مشتمل کتاب ترتیب دےدی ہے جسے کوئی بھی ہم وطن چھپوا سکتا ہے عجب نظام قدرت ہے جنہیں برین دین ہے انہیں دولت نہیں دی جنہیں دولت دی ہے انہیں برین محدود دی ہے۔ میرا مضمون کوئی خاص اثر نہیں چھوڑے گا میرے اس مضمون سے سماج میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی تاہم میں اپنے ان ہم وطنوں کی روحوں کے سامنے سرخرو ضرور ہو جاﺅں گا جو اولاد کا غم لے کر ابدی نیندس سو گئے۔ کچھ ترستے گئے کہ مرنے سے پہلے اپنے پیارے بچوں کی صورت ہی دیکھ لیتے کچھ بلکتے گئے کہ پولیس کو کیا بتائیں مرض کا سبب تو اپنے ہی پیارے ہیں اگرچہ بہکی نسل خود مکافات عمل کے پراسس سے گزر رہی ہے۔
مضمون کے اختتام پر مولانا وسیم عباس نے یہ شعر سنایا۔
عدل و انصاف فقط حشر پر موقوف نہیں
زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے
کہانی اپنی رودادِ جہاں معلوم ہوتی ہے
جو بھی لیتا ہے اسی کی داستان معلوم ہوتی ہے

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here