ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی
آ ج جب میری آنکھ کھلی تو اس میں پانچ دن سے جو آشوب چشم کا درد تھا اس میں کچھ کمی آگئی تھی۔ آجکل میں چوبیس گھنٹے آن ڈیوٹی ہوں اسلئے کہ کسی بھی ہسپتال سے کوئی بھی مرگ کی کال آسکتی ہے اور کسی بھی نرسنگ ہوم یا ہسپتال سے کسی کے کراہنے کی صدا آ±سکتی ہے ۔ ہمیشہ لاوراث میتیں دفنائی ہیں۔ ہمیشہ لاوارث جنازے اٹھائے ہیں۔ہمیشہ ہسپتالوں اور نرسنگ ہومز میں لاوارث زندہ لاشوں کو سنبھالا ہے مگر اتنا کبھی احساس غربت نہیں ہوا جتنا اب کورونا کے باعث ہوا ہے۔ آپ کو معلوم ہے کورونا ملعونہ کے باعث خیر کی خبر تو آنے سے رہی بلکہ( کثرت) میں وائرس لگنے کی خبریں بلکہ مرنے کی خبریں ہیں۔ دل پہ ہاتھ رکھ کر میسیج پڑھنا ہوتا ہے اور فون اٹھاتے انا للہ خود زبان پر آجاتا ہے۔اس وقت نیو یارک کی حالت یہ ہے کہ ہسپتالوں میں بیڈز نہیں ہیں۔ میڈیکل سینٹرز میں وینٹیلیٹرز نہیں ہیں۔ میت ہو جائے توہسپتال میں لاش لینا ایک مہم ہے۔ لاش مل جائے تو غسل دینے والا کوئی نہیںیہاں تک کہ کفن پہنانے والا کوئی نہیں، کفن پہنا بھی دیں جنازے کیلئے لوگ نہیں ہیں، مریضوں کیلئے گھروں کے سوانرسنگ ہومز میں جگہ نہیں ہے۔ گھروں میں رکھیں توشودر سا سلوک ہو رہا ہے۔ آج پیارے نہ زندہ کو دیکھ سکتے ہیں نہ مردہ کو۔لاشوں کیلئے فیونرل ہومز میں فریزرز نہیں ہیں۔ قبرستانوں دفنانے کی جگہ نہیں مل رہی۔ مل بھی جائے چار سے پانچ دن کا ویٹنگ پیریڈ ہے۔مریض کو شفا خانہ نہیں مل رہا۔ بیمار کو دوا خانہ نہیں مل رہا۔ شپس لاشوں کو سمندروں میں بہانے کیلئے مستعد کھڑے ہیں۔ جلانے کیلئے بھٹیاں گرم ہو چکی ہیں۔ بڑے بڑے ٹرالر اور ٹرک فریزر لگائے اسپتالوں کے باہر کھڑے ہیں۔ جسے نہیں مرنا وہ یہ خوف ناک مناظر میڈیا سے دیکھ کر بسمل کی طرح تڑپ رہا ہے۔ایسے لگتا ہے ہر ایک اپنی باری کا انتظار کر رہا ہے۔ میڈیا کی آنکھ نے اب دیکھا ہے کہ چار یا پانچ دن کے بعد اگر دفنانے کی اجازت مل گئی ہی تو ورثاءپہنچے ہی نہیں اور حکم فرما دیا کہ ہمیں قبرستان والے ویڈیو بھیج دیں۔ میں تو تیس سال سے امریکہ میں دیکھتا آرہا ہوں۔ میں نے کورونا سے پہلے غریبوں کے کورونے (لاوارثی ) دیکھے ہیں۔اس پر بارہا کالم لکھ چکا ہوں۔ آج نیویارک میں تدفین کی ویڈیو بھیجنے لگے تو کلیجہ منہ کو آگیا کہ جس اولاد کی خاطر باپ ساری زندگی روکھی سوکھی کھاتا رہا۔ جس اولاد کو امریکہ لانے کیلئے اسنے اپنی جان کی بازی لگا دی اور وہ اسی تگ و دو میں بازی ہار بھی گیا اسکی اولاد لاش کو دیکھنے کی روا دار نہیں ہے۔ کیے لاشوں کے وارث پہنچے ہی نہیں۔تھوک کے حساب سے ایک نہیں سب قبرستانوں میں لاشیں دفنائی جارہی ہیں۔ بلکہ سارے امریکہ کا یہی حال ہے کچھ کمی بیشی کے ساتھ۔توہین مردگان نہ ہو تو لاشیں پھینکی جا رہی ہیں۔ جلائی جا رہی ہیں ، بہائی جارہی ہیں۔بھائی بھائی کی لاش پہ آنے کو تیار نہیں ہے۔ بہن بہن کو دیکھنا نہیں چاہتی۔ والدین اولاد سے گریزاں ہیں۔ اولاد والدین سے بیزار۔ دوست دوست سے دور ہے تو رشتہ دار رشتہ دار سے فراری ہیں۔قرآن میں قیامت کے بارے پڑھا تھا ایک دوسرے کا بوجھ کوئی نہ اٹھائے گا۔ قیامت سے پہلے قیامت آگئی۔ قرآن کی تعلیمات کا سچ نظر آگیا کہ باپ ، ماں ، بھائی۔ دوست کوئی کام نہیں آرہا۔(جاری ہے)
ایسے لگتا ہے سارے رشتے کاغذی پھول تھے۔نفسا نفسی شروع ہو گئی ہے۔جو وسائل کے باوجود ،حتیاطی تدابیر کے باوجود، خطرات سے حفاظت کی گارنٹی کے باوجود آج کورونا وائرس کے باعث انکی میتوں دیکھنے کے روادار نہیں جو ان پر جان دیتے تھے وہ قیامت کی مشکل گھڑی میں انکے کام آئینگے ؟آدم بھوں کا عالم ہے۔ ہو کا منظر ہے۔پر رونق بازار سنسان جنگل دکھائی دے رہے ہیں۔ ۲۴ گھنٹے ریل پیل والے جادوں (شاہراہوں )پر کوئیلیں گنگنا رہی ہیں۔ ہر طرف سناٹا ہے۔ ہر طرف خاموشی ہے۔آبادیاں ویرانیوں میں بدل رہی ہیں۔
آدمی آدمی کو کھانے کو دوڑ رہا ہے۔ ادھر برطانیہ کے قبرستان کی ویڈ یو دیکھی تو سن سا ہو گیا جہاں ایسے میتیں دفنائی جارہی ہیں جیسے منڈیوں میں مویشی بکتے تھے۔ غریب ممالک میں کھانے کیلئے قطاریں بنی ہیں تو دنیا کے بڑے چوہدری ملک میں اسلحے کی خریداری ہو رہی ہے کہ جو کورونا سے بچ جائے اس سسکتی انسانیت کو گولیوں سے بھون دیا جائے۔ امریکہ میں اموات کی شرح بھی دنیا سے آکے ہے اور بے روزگاری بھی عروج پر پہنچ گئی ہے۔ لوک دن بدن یہ سوچ سوچ کر بیمار ہو رہے ہیں کہ کل کیا ہو گا؟ ڈیپریشن عروج پر ہے۔ اسٹریس نمبر ون ہے۔ کہ اگر کورونا سے بچ بھی گئے تو غربت و افلاس کا رونا کیسے بند ہو گا؟ اگر تقدیر نے بچا ہی لیا تو انکی گولیوں سے کیسے بچینگے جو اسلحہ خریدہی اسی نیت سے رہے ہیں کہ لوٹ مار مچاآئینگے ، چوریاں تو شروع ہو چکیں۔ اب آپ امریکہ میں گھر کھلا نہیں رکھ سکتے نہ ہی گاڑی کھلی رکھ سکتے ہیں۔
٭٭٭