شبیر گُل
امریکہ میں ٹرمپ ، پاکستان میں عمران خان مشکلات کا شکار ہیں ، مرکز میں وزراءکی بے لگامی کے بعد پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی کا فارورڈ بلاک بن چکا ہے۔ بلوچستان کے ایوانوں میں آنے والا زلزلہ تھم چکا ہے۔ حکومتی اتحادی ایم کیو ایم ، جی ڈی اے اور ق لیگ فی الحال پ±رانی تنخواہ پر کام کےلئے راضی ہوچکے ہیں، قوم کو نا گھبرانے کا درس دینے والے وزیراعظم خود گھبرا چکے ہیں۔
اسٹبلشمنٹ اپنے سلیکٹڈ م±ہرے کی ناکامی کے بعد صوبائی اسمبلیوں اور مرکز میں اکھاڑ پچھاڑ کا ارادہ رکھتی ہے۔ بوٹ پالش مافیا اور یوتھیے آئندہ چند ہفتوں میں بوٹوں والی سرکار کو جی بھر کے گالیوں کا عمل شروع کرینگے۔ن لیگ کے خواجہ آصف کی اندر کھاتے فوجی اسٹبلشمنٹ سے بات چل رہی ہے، شہباز شریف بھی اسی گیم کا حصہ ہیں۔ چوہدری صاحبان پہلے ہی بوٹوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پیپلز پارٹی اس سارے عمل میں زرداری اور فریال تالپور کو خاموشی سے باہر نکال لائی ہے۔ بلاول قدم پھونک پھونک کر رکھ رہی ہے۔ آئندہ یوتھیوں کی جگہ پٹواری بوٹوں کی پالش کا فریضہ انجام دینگے ، فضل الرحمن غصے میں ہاتھ مل رہے۔ ہیں کہ پی پی پی ،ن لیگ اور ق لیگ مولانا کو آگے لگا کر خود بھاگ نکلے ہیں۔
کرپٹ جرنیلوں کو یہی چور ، ا±چکے، ملک فروش سوٹ کرتے ہیں جو کبھی مسلم لیگ ، کبھی پیپلز پارٹی ، کبھی ایم کیو ایم اور کبھی پی ٹی آئی کی شکل میں م±ہرے میسر رہتے ہیں۔ فوجی اسٹبلشمنٹ گزشتہ ستر سال اسی گندگی اور گلی سڑی تعفن شدہ لاش کو دوام بخشتی رہی ہے۔
کبھی این آر او سے قاتلوں کو ملک سے بھگایا جاتا ہے اور کبھی بیرونی فنڈنگ پر پلنے والے گماشتوں کو آکسیجن دیکر مین اسٹریم میں لایا جاتا ہے۔
جرنیلو! خوف خدا کھاو¿ ملک پر رحم کرو۔ سسٹم کو چلنے دو۔ آپ لوگوں کے کالے کرتوتوں کی وجہ سے سسٹم آج تک جڑ نہیں پکڑ سکا ، ہر آنے والا لوٹ مار کرکے گزشتہ حکمرانوں پر الزام دھر کے چلا جاتا ہے۔ جرنیلوں، سیاستدانوں، ججوں اور بیوروکریٹس کی لوٹ مار اور بندر بانٹ نے عوام کو دو وقت کی روٹی سے محروم کردیا ہے۔ امیر ٹیکس دیتا نہیں۔ غریب ٹیکسوں اور مہنگائی کے بوجھ تلے دب چکا ہے۔ ا±سکی چیخیں اور آہیں سننے کو کوئی بھی تیار نہیں۔ عمران خان اپنی نالائقی چھپانے کے لئے عوام کو ،ٹاک شوز اور اخبارات نہ پڑھنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ عمران خان کی پہلی ترجیح ایم کیو ایم کے دہشت گرد اور قاتل اتحاد ی ہیں۔ جب مینڈٹ جعلی ہوتو قاتلوں،چوروں اور دہشت گردوں کی بلیک میلنگ کے آگے جھکنا پڑتا ہے۔
ملک میں حسب سابق مینڈکوں کی منڈی لگی ہے۔ برساتی مینڈک ،موسم بدلتے ہی باہر نکل آئے ہیں ،عمران خان اپنے ان مینڈکوں کے بوجھ تلے دبتے نظر آ رہے۔ ہیں۔
مینڈک اپنی جگہ ٹک کر نہیں بیٹھتا ، پ±ھدکنا،جھپٹنا، پٹوسنا، ا±سکی عادت میں شامل ہوتا ہے ، عمران خان نے پیروں کے تعویزات سے ان مینڈکوں کو تولنے کی کوشش کی ہے۔ مینڈکوں کو تولنا بہت م±شکل اور ناممکن ھوتا ہے۔ عمرانیات،م±شرفیات،لیگیات ، پیپلیات، کی باقیات کا ملغوبہ تحریک انصاف۔کے اندر رنگ برنگے مینڈکوں کے پ±ھدکنے کا عمل جاری ہے۔
ایماندار وزیراعظم کی حکومت میں آٹا تیس روپے سے بڑھ کر اسی روپے کلو ہوچکا ہے۔ چینی پچاس روپے کلو سے بڑھ کر اسی روپے کلو آگئی ہے۔ عمران خان شیلٹرہوم کے ڈرامے کر رہے۔ ہیں۔ وزراءآٹے کی قیمتیں بڑھنے پر فرماتے ہیں ، عوام روٹی کم کھائیں۔مزدور کی تنخواہ پندرہ ہزار اور خرچہ تیس ہزارلیکن انتہائی سادگی پسند وزیراعظم کے گھر کا خرچہ ڈھائی لاکھ سے بھی پورا نہیں ہورہا۔یوتھیے بیچارے کیا کریں لیڈر خود مہنگائی کے ہاتھوں رو رہا ہے لیکن یوتھیے ناچ ناچ کر ایمانداری کے قصے سنا رہے ہیں۔
جہانگیر ترین کی مہنگی گاڑیوں اور ہیلی کاپٹر کے ”چوٹے“ کا ذکر بالکل نہیں۔ مدینہ کی ریاست کے دعویدار نے حج اور عمرہ کی فیس ڈبل کر دی ہے کہ کوئی غریب آدمی حج کرنے کا خواب نہ دیکھ سکے۔ کینسر ہاسپیٹل سے شہرت پانے والے نے حکومتی خرچ سے غریبوں کے کینسر کا علاج ختم کر دیا۔ کرپشن کے خاتمے پر ووٹ لینے والے کی حکومت میں کرپشن اور رشوت بڑھ گئی۔ زخیرہ اندوزوں ،مہنگائی کرنے والوں۔ جب تک آٹا اور چینی مافیا کو الٹا نہیں لٹکایا جاتا روزانہ ایسے بحران پیدا ہوتے رہیں گے۔عمران کہتے ہیں کہ مافیا ا±نہیں چلنے نہیں دے رہا۔ جناب آپ وزیراعظم ہیں قانون کی طاقت استعمال کریں ، مجرموں کو ننگا کریں۔ جب آپ کے گھر کے بھیدی ہی لنکا ڈھا رہے ہوں تو کسی کو بلیم نہ دیں اور نہ ہی بار بار ماضی کے حکمرانوں کا ذکر کریں اگر آپ کے اندر اہلیت ہے تو کچھ کر کے دکھائیں، کرکٹ ٹیم چلانے، چندہ جمع کرنے اور ملک چلانے میں بہت فرق ہے ، اب یوتھیوں کو بھی ڈانس پارٹی کے خمار سے باہر آکر عوام کا حال دیکھنا چاہئے، وہ بھی پٹواریوں کا دوسرا رخ محسوس ہوتے ہیں۔ جب سزا کا خوف نہ ہوتو جرم پھیلنے کا اندیشہ رہتا ہے۔ آٹا اور شوگر مافیا کو معلوم ہے کہ قیمتیں بڑھانے یا مارکیٹ سے اجناس غائب کرنے کی کوئی سزا نہیں، اس لئے یہ لوگ دیدہ دلیری سے سمگلنگ کرتے ہیں۔ دو ٹکے کے جج بیٹھے ہیں جنہیں فرائض منصبی کا ادراک نہیں۔
وزیراعظم ہویا وزراءاعلیٰ، ججز ہوں یا پولیس سربراہ ، ارکان سینٹ ہوں یا ارکان اسمبلی، سیاسی لوگ ھوں یا مذہبی۔ سماجی لوگ ھوں یا عوام الناس۔ ہر کوئی سسٹم کی گندگی، اسکے م±ضمرات۔ اسکی خامیوں کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن کوئی بھی ایسا نہیں جو نظریاتی تشخص اور بنیادی نظام کی بات کرتا ھو جس کے لئے ہم انگریز سے آزادی حاصل کرنے کے فوری بعد ہندوستان سے علیحدہ ہوئے قومیت اور نظریہ کی بنیاد پر۔
علامہ اقبال کا تصور ریاست اور قائداعظم کا نظریہ ،جب تک اس ملک میں رائج نہیں ہوگا۔ یہ ملک مسائل کی آماجگاہ رہے گا۔ میں اپنے دوست معروف شاعر پروفیسر حماد خان صاحب سے مکالمہ کر رہا تھا کہ ھمارے محترم دوست فوری مولوی پر چڑھ دوڑے۔ میں نے عرض کیا کہ جناب گزشتہ ستر سال سے کیا مولوی کو اقتدار دیا گیا ہے۔ یا مولوی بالواسطہ یا بلاواسطہ نظام حکومت کا حصہ دار رہا ھو۔ انہوں نے فرمایا کہ مولوی اسمبلیوں میں تو موجودہیں۔ میری عرض تھی کہ جناب پروفیسر صاحب جو چند مولوی اسمبلیوں کا حصہ ہیں۔ وہ اقتدار میں شراکت دار تو نہیں اور دوسرا جو مولوی اسمبلی میں موجود ہواور آئین سے ختم نبوت سے متعلق شق کا خاتمہ ہوجائے اور وہ چ±پ رہیں ، میں ا±نکو مولوی نہیں مانتا۔ مولوی اسمبلیوں میں موجود ہواور سودی نظام کے خلاف بات نہ کرے میں ا±سکو بھی مولوی نہیں مانتا۔ مولوی وہ ہے جو دو قومی نظریہ کی آبیاری۔ سودی سسٹم کا خاتمہ ، اسلامی قوانین کے احیاء کے لئے جدوجہد کرے۔عوام الناس کو انصاف اور روٹی کی بات کرے۔ موجودہ حالات میں سسٹم کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم کو تبدیل کرنے سے تبدیلی نہیں آسکتی ، نیچے سبھی پ±رانے چور نام بدل کر بیٹھے ہیں۔ سسٹم تبدیل نہیں ہوگا تو کوئی آسمان سے بھی اتر آئے یہی حال رہے گا۔
اگر عوام کو انصاف ، چور کو بروقت سزا نہیں ملتی تو آپ جنتی مرضی تبدیلیاں کرلیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ عمران الٹا بھی لٹک جائیں کوئی فرق نہیں پڑنے والا،جب تک جوڈیشری، پولیس ،تعلم، سیاست، معیشت میں اصطلاحات نہیں ھونگی کوئی فرق اور تبدیلی نہیں آسکتی۔پاکستان میں چور کا ہاتھ کاٹنا ، ظالم کو سزا، یکساں نظام تعلم ،مزدور کی ا±جرت، غریب کی کفالت، پولیس اور اداروں میں اصلاحات نہیں ہوں گی۔ ملک کی کشتی اسی طرح ڈگمگاتی رہے گی۔آئینی طور پر ارکان اسمبلی کی اہلیت، عدلیہ اور پولیس کے فرائض ، پارٹیوں کے اندر سالانہ الیکشنز نہیں ہوں گے ، آپ سر پیٹتے رہیں کچھ بہتر نہیں ھونے والا۔ اگر کوئی شخص کسی بچی کا ریپ کرتا ہے، ملکی دولت لوٹتا ہے، عدلیہ فوری انصاف مہیا نہیں کرتی ،پولیس آفیسر انصاف کی راہ میں روڑے اٹکاتا ہے۔ اگر ایسے قومی مجرموں کو شام سے پہلے سزا نہیں ملتی، تو ظالم اور مجرم قانون کا منہ چڑھاتے رہنگے۔ عوام تبدیلی کے غیر حقیقی خواب دیکھ کر مایوس ہوتے رہیں گے۔ ہر بات کا جواب ورلڈ کپ اور کینسر ہاسپیٹل نہیں ہوسکتا۔ پی ٹی آئی گزشتہ دس سال سے یو ٹیوب اور سوشل میڈیا پر شہرت پاتی ہے۔ عمران خان اقتدار میں آنے کے بعد حکومت کو یو ٹیوب پر چلانے کی ناکام کوشش کرتے رہے۔ یو ٹیوب تو کامیاب نہ ہوسکی۔ البتہ یوٹرن میں مہارت حاصل کرکے دنیا کے نمبر ون (مسٹر یوٹرن )بن گئے۔
قارئین! کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ دنیا کے بڑے ممالک میں حکمرانی کا قحط الرجال ہے۔ امریکہ میں ٹرمپ جیسا واہیات شخص صدر ہے۔ انڈیا میں ایک سٹھیایا ہوا پاگل ،جاہل، چائے فروش مودی۔ایک ارب پینتیس کروڑ لوگوں کا پردان منتری ہے۔ انگلینڈ میں بورس یلسن جیسا مخبوط الحواس شخص وزیراعظم ہے۔ شمالی کوریا میں کم جون چ±نگ جیسا نیم بیہوش آدمی حکمران ہے۔ اسرائیل میں سیریل کلر (فاشسٹ قاتل ) وزیراعظم ہے۔
اور پاکستان میں ایک احمق گدھاحکمران بن بیٹھا ہے جس کو ہر بات پر 22سالہ جدوجہداور ہر سوال پر ماضی کے حکمران یاد آرہے ہیں جو مہنگائی کے عذاب اور عوام کا درد صرف تقریروں کی نظر کرتا ہے۔ وزیراعظم صاحب کب تک غریب کو صبر کی تلقین اور مظلوم کو گبھرانا نہیں کی لوری س±ناتے رہیں گے۔آپ کے اپنی ماں کی یاد پر تو آنسو نکل آتے ہیں لیکن جن کروڑوں ماو¿ں کو مہنگائی کے عذاب سے رولا رہا ہے ا±س پر آنسو نہیں بہتے،اللہ کی شان دیکھئے کیسے کیسے تخفے دنیا پر حکمرانی کررہے ہیں۔