عمران خان کے اقوال زریں

0
1116
کامل احمر

کامل احمر

اس ہفتہ ایک بار پھر عمران خان کراچی تشریف لائے ان کا یہ دورہ کراچی میں بسنے والے تیسرے بڑے شوکت خانم ہسپتال کیلئے چندہ جمع کرنا تھا جو تکمیل کے مراحل سے گزر رہا ہے یہ ان کے ذاتی مقاصد کے تحت ہے جس کا بیج وہ کئی دہائیوں پہلے بو چکے ہیں اور اس وجہ سے ان کا نام ہے اور رہے گا، دنیا بھر میں ہر ملک میں چھوٹا ہو یا بڑا صدیوں سے مالدار لوگ جن کے سینے میں دوسروں کیلئے دل دھڑکتے ہیں کرتے آئے ہیں، ہندوستان میں بھی برٹش حکومت کے زمانے میں یہ چلن رہا ہے اور ملک تقسیم ہونے کے بعد بھی ان ہی لوگوں کی بنائی ہوئی چیزیں یاد گار بن کر کھڑی ہیں۔ البتہ پاکستان میں عمران خان شخص واحد ہے جس نے اپنے ذاتی تعلقات اور ہشرت کے علاوہ اپنے پیسے کا بھی استعمال کیا ہے اور ایسا کام ابھی تک کسی نے نہیں کیا جو غریبوں کی ضرورت پوری کر سکے بہت پہلے جب آغا خان فاﺅنڈیشن کی طرف سے کراچی میں ہسپتال اور کالج بنانے کا اعلان ہوا تو اس کے چرچے ہوئے لیکن غریبوں اور ناداروں کا اس میں حصہ نہ تھا، وہ ایک مہنگا ترین ہسپتال ثابت ہوا اور ہے جس کا ہمیں تجربہ بھی ہوا اور وہاں کے ایک دو بد مزاج ڈاکٹروں سے مل کر طبیعت مکدر ہوئی جن میں ایک نام یاد ہے ڈاکٹر مشتاق، ڈاکٹر ہونے کے ناطے ان میں کوئی ایسی بات نہیں تھی کہ ہم کہہ سکیں کہ وہ مریض کو شفاءدے سکتے ہیں، ہم اپنی چھوٹی ہمشیرہ کی موت کا ذمہ دار بھی انہیں اور ہسپتال کی غفلت کو ہی ٹھہرائیں گے یہی کہہ سکتے ہیں کہ ایسا لکھا تھا۔
حکومت کی طرف سے وہاں کے عوام بالخصوص سوا دو کروڑ کی آبادی والے شہر میں غریب اور متوسط طبقے کیلئے کوئی سہولت نہیں، یہ سندھ حکومت کا کارنامہ ہے جس کا ہر فرد مال بنانے میں مصروف ہے، بات ہو رہی تھی عمران خان کے حالیہ کراچی کے دورے کی، جس کیلئے وہ آئے تھے اور انہوں نے پھر سے وہ کہانی دہرائی جو کئی بار عوام سن چکے ہیں اور میڈیا دکھا چکا ہے۔ ان کی تقریر سے مندرجہ ذیل باتیں لکھتے چلیں انسان کو مشکل حالات میں ہمت نہیں ہارنی چاہئے۔
مشکل وقت زندگی کا حصہ ہوتا ہے ،اس سے ہار نہیں ماننی چاہئے۔
انسان خواب دیکھنے کے بعد پورا کر سکتا ہے۔
ماضی کے تجربات سے بہت کچھ سیکھا ہے
آزاد آدمی کبھی اپنے ضمیر کےخلاف نہیں جاتا
بچپن میں والدہ جیب خرچ دیتی تھیں، والد صاحب سے مانگتے ڈر لگتا تھا، افرادی قوت ہمارا سرامیہ ہے۔
وہ بہت کچھ کہہ گئے اور اگر کچھ بھی نہیں کہا تو وہ کراچی نے دیرینہ مسائل اور عوام کو درپیش مشکلات کا ذکر نہیں کیا۔ نہ ہی وجہ بتائی کہ ایک کے بعد ایک چیز کا بحران کیوں ہو رہا ہے اور اس کی روک تھام کیسے کی جائے ہم بتاتے چلیں یہ صورتحال وہی ہے جو ایوب خان کے مارشل لاءسے پہلے تھی بالآخر فوج کو موقعہ ملا اور روز کی سیاسی قلا بازیاں، مہنگائی، ذخیرہ اندوزی، بلیک مارکیٹنگ سے پیدا ہونے والی خرافات کو روکنے کیلئے مارشل لاءلگ گیا اور ہم نے دیکھا کہ دوسرے ہی دن ساری چیزیں، ڈالڈا، آٹا، پیاز، ٹماٹر، دوکانداروں نے دوکان کے آگے سجا کر نرخ بھی لکھ دیئے اور عوام کی زندگی میں آسانی پیدا ہوگئی۔
عمران کی اس بات سے متفق ہیں کہ آزاد آدمی کبھی اپنے ضمیر کےخلاف نہیں جاتا، سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے سینوں میں ضمیر ہے اگر ہم صاحب اقتدار اور با اختیار ہیں اس میں باجوہ صاحب سے لے کر عدلیہ اور پولیس کے علاوہ ہر وہ شہری ہے جس کے ہاتھ میں حکومت کا اختیار ہے، پہلے ہمیں یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ کیا ہم آزاد ہیں ہمارے ہاتھ کس نے باندھے ہوئے ہیں اور ہماری سوچ پر کس کے پہرے ہیں جو ہمیں اپنے ملک کے اندرونی حالات کو درست کرنے سے روکتے ہیں۔ یہاں پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ضمیر مر چکے ہیں ہماری سوچ لالچ اور طاقت کے غلطا ستعمال میں ضائع ہو رہی ہے۔
ماضی کے حکمرانوں کو لوٹ مار کر کے باہر جانے دیا، عدلیہ ملک میں ہونے والے کسی بھی جرم کی سزا نہیں دے سکتی کمسن بچیوں کا اغواءیا ان کے ساتھ زیادتی کے نتیجے میں ان کا قتل، سب کے سامنے ہوتے ہوئے بھی صرف ایک مجرم کو پھانسی دے پائی ہے جبکہ سلسلہ جاری ہے، ساہیوال سے لے کر اور مادل ٹاﺅن کے قتل عام کی رپورٹ دفن ہو چکی ہے۔ راﺅ انوار آزاد گھوم رہا ہے زرداری مسکرا رہا ہے نوازشریف کا ٹبر لندن میں عیاشیاں کر رہا ہے تو ہم کیسے کہہ دیں کہ حکومت میں شامل لوگوں کے پاس ضمیر ہیں معاشرے میں استری اور برائی پھیلانے کی عادتیں اب فطرت بن کر با اثر اور طاقتور لوگوں کے خوف میں شامل ہے۔ عمران خان کے ساتھ سارے وہ لوگ شامل ہیں جو پچھلی حکومتوں میں تھے ان سے امید رکھنا شیخ چلی کا خیالی پلاﺅ ہے اور حقیقت وہی ہے کہ عوام اپنے مسائل کے حل کیلئے حکومت کی طرف سے نہیں دیکھ رہے۔ پچھلے سترہ سے زیادہ مہینوں میں عمران خان کے وعدے وعدے ہی رہے ہیں انہوں نے نون لیگ اورپیپلزپارٹی کو خود پر ہنسنے کا موقع دیا ہے اور اپنے چاہنے والوں کو شرمندہ بھی کیا ہے ہر جگہ نا اہل بیٹھا ہے ہمیں نہیں معلوم وزیراعلیٰ پنجاب با ضمیر ہے یا نہیں لیکن متنازعہ ضرور ہے ادھر KPK میں تین لوگوں کو شٹ اپ کال تو دی ہے لیکن وہ میڈیا پر آکر بول رہے ہیں اور عمران خان کے پاس ان کے قول زریں ہیں جو وہ سنا رہے ہیں۔ پچھلے 17 ماہ سے ہر جگہ عہدے بدلے جا رہے ہیں لیکن کچھ نہیں ہو رہا یہ ثابت ہوچکا ہے کہ عدلیہ، فوج، حکومت ایک پیج پر نہیں۔ فی الحال ایم کیو ایم کو میٹھی گولی دے کر بہلا دیا گیا ہے لیکن کراچی کے عوام جان رہے ہیں کہ کچھ نہیں ہوگا۔ ادھر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے وزیر ریلوے کو بلوایا ہے ان کا یہ جملہ ہماری ریلوے اٹھارہویں صدی سے سن رہی ہے نہ ریل نہ اسٹیشن نہ سگنل، نہ پٹڑی کچھ ٹھیک نہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ برطانیہ کی بنائی ہوئی ریلوے جس سے دنیا کا ہر ملک فائدہ اٹھا رہا ہے ہم وہاں بھی مار کھا گئے ہیں ۔عمران خان کی پیر پگاڑہ سے ملاقات ہوئی ہے سندھ کو یرغمال بنانے والوں میں زرداری کے علاوہ یہ بھی ہیں لیکن عوام کو ان کی غلامی میں ہی رہنا ہے تو پھر عوام سڑکوں پر کیوں نہیں آتے؟ ہم سے لوگ کہتے ہیں کہ ہمارا جواب ہوتا ہے، آتے ہیں، اس کا ٹھیکہ مولانا ڈیزل اور رضوی جیسے اسلام کے ٹھیکیداروں کے پاس ہے، وہ کہتے ہیں اسلام کے ساتھ پورا ملک خطرے میں ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here