افغان جنگ کے لرزہ خیز حقائق

0
118
مجیب ایس لودھی

مجیب ایس لودھی، نیویارک

افغان جنگ میں اپنی مسلسل ناکامیوں کو چھپانے والے حکومتی عہدیدران کو ایک اور دھچکا لگ گیا ، واشنگٹن پوسٹ نے افغان جنگ کے حوالے سے بڑے پیمانے پر دستاویزات شائع کر کے حکومت کی افغانستان میں ناکامیوں کا پول کھول دیا ہے ،افغانستان میں سالوں سے سب اچھا کی رٹ لگانے والے حکام نے عوام کو ”ماموں“ بناتے ہوئے حقائق کو چھپایا ، ایک ایسے موقع پر جب صدر ٹرمپ کو مواخذے کی صورت میں بڑے خطرے کا سامنا ہے ،افغان جنگ پر رپورٹ کو جلتی پر تیل چھڑکنے کے مترادف قرار دیا جا رہا ہے ، ٹرمپ کی جانب سے تباہ کن فیصلوں کا سلسلہ جاری ہے اور ری پبلکن پارٹی تو ہمیشہ ہی غیر ذمہ دار رہی ہے، ان حالات میں یہ انکشاف ہونا کہ امریکی حکام نے جنگ کے حوالے سے اپنے خدشات چھپائے، انہیں پتا تھا کہ جنگی حکمت عملی ناکام ہورہی ہے جس کی وجہ سے پوری صورتحال ہی تبدیل ہوسکتی ہے۔ ویسے حکمرانوں نے عوام سے اتنا جھوٹ نہیں بولا جتنا انہیں گمراہ کیا ہے، خاص کر افغان جنگ کے بارے میں اپنے خدشات کو حکومتی رازداری میں رکھ کر دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ حکومت جانتی ہے کہ افغان حکومت بدعنوان اور ناقابل اعتبار ہے، پاکستان طالبان کی مدد سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے گا، ایسے میں فوج کی حکمت عملی حالا ت سے بے خبر اور تضادات سے بھرپور تھی،سول اور فوجی حکام عوام اور کانگریس کی حمایت حاصل کرنے کے لیے جنگ کے بارے میں باربار حوصلہ افزا رپورٹ پیش کرتے رہے۔
مثال کے طور پر دسمبر2009 ءمیں افغانستان میں سب سے اعلیٰ کمانڈر جنرل میک کرسٹل نے کانگریس کی کمیٹی کو بتایا کہ اگلے 18 ماہ اس جنگ کے لیے فیصلہ کن ہیں اور بالآخر فتح ہماری ہوگی، ہم اپنے اس مشن کو مکمل کرسکیں گے، ان کے جانشین جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے بھی ایک سال بعد ایسی ہی امید افزا گفتگو کی حالانکہ اس وقت امریکی انٹیلی جنس رپورٹ کچھ اور کہہ رہی تھیں۔2010ءمیں جنرل جیمز میٹیس جو بعد میں سیکرٹری دفاع بنے نے کانگریس کوبتایا کہ”ہم اس وقت صحیح راستے پر ہیں“ اس طرح کی گواہی ایک مخصوص حکمت عملی کا حصہ تھی، سابق وزیر دفاع ڈونلڈ رمز فیلڈ کے عملے نے ایک رپورٹ2006 ءمیں تیار کی جو صرف خوش کن اطلاعات سے مزین تھی، جنرل ڈین کے میک نیل نے 2007ء میں زبردست پیش رفت کے بارے میں بتایا، اس وقت کے صدر باراک اوباما اور وزیر دفاع لیون پنیٹا نے دعویٰ کیا کہ ہم نے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا ہے۔ اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے 2011 ءاور2012ءمیں جنرل پیٹریاس نے بتایا کہ فوج مشکلات سے نکل آئی ہے۔ پانچ برس بعد جنرل جان نکسن نے ان خوشخبری بھرے بیانات کو ہی دہرایا لیکن یہ سب لوگ غلط تھے کیونکہ افغانستان کے حالات مسلسل بگڑتے جارہے تھے، حکام کی جانب سے ایک ہی جیسی بیان بازی کی طویل تاریخ شرمنا ک ہے، اعلیٰ حکام سے لے کر نچلے درجے کے اہلکاروں کی جانب سے خوشخبریوں کے باوجود افغانستان میں امریکی کوششوں کے ناکام ہونے کے ثبوت موجود تھے۔
افغانستان کی تعمیر نو کے خصوصی انسپکٹر جان سوپکو کی بہت سی تنقیدی رپورٹس بظاہر واشنگٹن پوسٹ کی جانب سے جاری دستاویزات کی بنیاد پر ہی تیار کی گئیں اگرآپ چند سفارشات پر غور کریں توواضح ہوگا کہ اگرافغانستان سے طویل وابستگی کا عزم برقرارہتا ہے تو یہ جنگ مزید ایک دہائی جاری رہے گی اور اس میں سیکڑوں ارب ڈالر لگ جائیں گے لیکن پھر بھی ناکامی کا خطرہ برقرار رہے گا۔ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ایک بہت دور بیٹھی بڑی طاقت بغاوت کو ناکام نہیں بناسکتی جبکہ اس کے د شمنوں کو پاکستان میں محفوظ پناہ گاہیں حاصل ہیں اور اس کی اتحادی افغان حکومت ناامیدی کی حد تک بدعنوان اور ناکارہ ہے،یہ حقائق گزشتہ 10 برس سے زائد عرصے سے عیاں ہیں، بد قسمتی سے امریکا کی دونوں جماعتوں کے رہنماو¿ں نے کوئی حتمی نتیجہ اخذ نہیں کیا ہے۔یقینی طورپر 2دہائیوں کی کوششوں اور ایک ٹریلین ڈالر خرچ کرنے کے بعد کچھ نتائج حاصل کیے گئے ہیں، افغانستان کی معیشت ترقی کرگئی، معیارِ تعلیم اورمعیارِ زندگی بہتر ہوگیا، خواتین کو زیادہ حقوق حاصل ہیں، افغانوں کو انتخابات کا تجربہ حاصل ہوا لیکن لاکھوں افغان اور3200امریکی فوجی ہلاک ہوئے۔
حکومت افغانستان میں سیاسی استحکام قائم کرنے میں ناکام رہی ہے، آج بھی سیاسی صورتحال وہی ہے جو طالبان کا تختہ الٹتے وقت تھی،یہ بات تیزی کے ساتھ واضح ہوتی جارہی ہے کہ افغانستان کی تقدیر کا فیصلہ افغان عوام ہی کریں گے نہ کہ بیرونی طاقتیں،کوئی غلط فہمی میں نہ رہے، افغان جنگ عراق پر حملہ کرنے جیسی سنگین غلطی نہیں تھی لیکن عراق کے مقابلے میں افغانستان میں ناکامی کاسامنا ہے۔تواصل سوال یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بھرپور مالی وسائل رکھنے والی اسٹیبلشمنٹ ایک کبھی نہ جیتی جانے والی جنگ کیوں جاری رکھنا چاہتی ہے۔کیوں اسٹیبلشمنٹ کے چند ممبران ہی حالات کا درست اندازہ لگا سکے اور اس حوالے سے لوگوں کو آگاہ بھی کیا، اندرونی حلقے کیا کچھ جانتے ہیں اور جنگ اتنا طویل عرصے کیوں چلتی رہی،جنگوں کی ایک وجہ تو امریکا کاسازگار اسٹرٹیجک مقام پر واقع ہونا ہے۔ ایک دنیاسے کٹا ہوا علاقہ جو دولت سے مالامال بھی ہے، افغانستان جیسی مہنگی جنگ91ٹریلین ڈالر کی معیشت آسانی سے برداشت کرسکتی ہے جبکہ دشمن امریکیوں کو ان کے گھروں میں نشانہ بنانے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتاہو۔ طالبان کے مقاصد مکمل طور پر مقامی علاقوں تک محدود ہیں، انہوں نے کبھی امریکی سرزمین پر براہ راست حملے کرنے کی کوشش بھی نہیں کی ہے اگر چہ ان کی پناہ میں موجود شخص اسامہ بن لادن2001 میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ کرچکا ہے۔
اسامہ بن لادن ہی وہ شخصیت ہے جس کا سہارا لے کر افغانستان میں جنگ شروع کی گئی اور پھر پاکستان کے علاقے ایبٹ آباد میں آپریشن کرتے ہوئے اس کردار کو منطقی انجام تک پہنچانے کا اعلان کیا گیا جس کے حوالے سے عالمی سطح پر متضاد رائے پائی جاتی ہے کہ اگر اسامہ بن لادن کو آپریشن میں ہلاک کیا تو اس کی لاش کو میڈیا کے سامنے کیوں پیش نہیں کیا گیا ؟اسامہ بن لادن کے زندہ ہونے کے متعلق بھی متضاد اطلاعات تھیں ،محترمہ بینظیر بھٹو سمیت متعدد رہنماﺅں کے مطابق اسامہ بن لادن کو اس کے محافظ نے ہی بہت عرصہ قبل ہلاک کر دیا تھا جبکہ اس وقت کے صدر بش نے اپنے جنگی عزائم کو پورا کرنے کے لیے اسامہ کے زندہ ہونے کا ڈرامہ رچایا ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here