مرحومہ ، مغفورہ ،عالمہ، فاضلہ،سیدہ طلعت نقوی بنت سید محمد ، زوجہ آیت اللہ سید حسین مرتضیٰ نقوی کے انتقال سے ایک ایسا خلا پیدا ہوا ہے کہ جو پ±ر ہونے والا نہیں ہے۔مرحومہ نے کم و بیش 40 سال تک بطور خدمت گزار مذہب جعفریہ تحصیل و تدریس میں ایک عظیم مقام پایا۔ جب میں حوزہ علمیہ قم میں طالب علم اور پھر مدرس رہا تو میں نے برادرم آغا حسین مرتضیٰ اور خواہرم سیدہ طلعت کو بڑی محنت کے ساتھ تحصیل علم اور پھر اردو زبان کی طالبات کی سرپرستی اورخدمت میں مشغول کار پایا۔ اس خلوص کے ساتھ میں نے اس کپل کو حوزہ علمیہ قم کے ماحول میں مشغول خدمت پایا۔ یہ بے نظیر نہیں تو کم مثال ضرور ہیں۔
آغا حسین مرتضیٰ کے والدبزرگوار علامہ سید مرتضیٰ حسین صدر الافاضل کی سرپرستی نے سید حسین مرتضیٰ کو مولانا سے آیت اللہ بنا دیاجبکہ سید محمد مثنیٰ کی تربیت اورآغا حسین مرتضٰی کی زوجیت نے سیدہ طلعت کو ایک اسٹوڈنٹ سے مجتہدہ بنا دیا۔دو خاندانوں کے پاکیزہ ماحول نے افق فقاہت پر دو ایسے ستارے نمودار کر دئیے جوآئندہ کے طلبا دین کے لئے بہترین ضوفشانی کا ذریعہ قرار پائے۔
جس زمانے میں ،میںآیت اللہ محمد علی مدرس افغانی کی شاگردی میں ادبیات و معقولات کا سفر طے کر رہا تھا۔ اسی اثنا میں ایرانی نژاد ایک مجتہدہ نے مدرسہ الحجتیہ کے عقب میں شرح صمدیہ لکھی تھی۔جسے ان محترمہ نے ہم جیسے طلاب دینی کے لئے فری تقسیم کیا تھا۔اس وقت میرے دل میں ایک امنگ پیدا ہوئی تھی کاش ہمارے برصغیر میں بھی ایسی مجتہدہ پیدا ہوں۔اس حسرت کو عملی جامہ بہن طلعت نے کئی ڈیکیٹز کے بعد پہنا دیا۔روحش شاد باد۔جس زمانہ میں جامعہ الزہراءسے قم کی بنیاد رکھی جا رہی تھی۔اس زمانے میں ان دونوں میاں بیوی کی خدمات بہت ہی درخشاں تھیں۔ آغا حسین مرتضیٰ سے میری ملاقات 70 کی دہائی سے ہے۔ جب وہ آئی او، اورآئی ایس او ،کی مجالس نظارت میں ایک اہم رکن تھے۔دنیاوی تعلیم حاصل کرنے والے پروفیشنلز بشمول ڈاکٹرز، انجینئرز، پروفیسرز وغیرہ کا دینی تعلیم کی طرف رجحان آغا حسین مرتضیٰ کا مرہون منت ہے جبکہ اعلیٰ ٰ تعلیم یافتہ خواتین کا دینی تعلیم کی طرف رجحان سیدہ طلعت نقوی مرحومہ کا مرہون منت ہے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ دونوں میاں بیوی اپنے ہاتھ سے ہماری قوم کی بچیوں یعنی طالبات حوزہ علمیہ کے لئے کھانا پکاتے تھے۔ خود برتن دھوتے، خود جھاڑو دیتے،انہی خدمات کا بدلہ اللہ نے انہیں اس صورت میں دیا کہ بشمول ان کے فرزند تین مجتہد پیدا ہو گئے۔دنیا چھوڑ کر دین کی طرف آنے کا رجحان جو ہندوستانی، پاکستانی طلبا و طالبات میں پیدا ہوا وہ اسی نقوی فیملی کے نامہ اعمال میں جائے گا۔اس عظیم فیملی کے خلوص اور خدمات میں گواہ میرے کلاس فیلو ، میرے بھائی علامہ راجہ مظہرعلی خان بھی ہیں۔ نقوی فیملی کا گھر قم میں واقع امام خمینی کے دولت خانہ کے بائیں طرف تھا اور میرا گھر امام راحل کے گھر کے دائیں طرف تھا۔ اس لئے دن میں کئی بارآغا حسین مرتضیٰ سے ملاقات ہوتی تھی۔جب مولانا منظور محسن رضوی ڈین علی گڑھ یونیورسٹی میں قیام پذیر تھے تو ملاقاتوں کا سلسلہ اور بڑھ گیا۔
مرحومہ و مغفورہ درجہ اجتہاد پر فائز ہونے والی پورے برصغیر کی خواتین میں سے پہلی خاتون تھیںکیونکہ خواتین کے لئے حوزات علمیہ میں ثق الاسلام کے علاوہ کوئی اور لقب مرسوم نہیں۔اس لئے انہیں ثق الاسلام لکھا جاتا ہے۔ ایک خاتون کے لئے ایک طرف بہترین شوہر داری دوسری طرف بے مثال تربیت اولاد، تیسری طرف طالبات کی خدمت ، چوتھی طرف درجہ اجتہاد پر فائز ہونا۔پانچویں طرف عزادری امام حسینؑ کی خدمات یہ وہ پانچ مشکل کام ہیںجو ایک وقت میں ایک خاتون کے لئے انجام دینے اس وقت تک امکان پذیر نہیں جب تک تائید الٰہی اور واسطہ محمد وآل محمد نصیب نہ ہو۔
اللہ کریم مرحومہ و مغفورہ کو ان کے اجداد اطہار کے جوار میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے،ان کے خاندان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ان کی شاگرد عالمات کو تحصیل و تدریس میں معفق و معید فرمائے۔
میں نے یہ سطور برادارم الحاج سید احتشام حیدر نقوی کی فرمائش پر عجلت میں تحریر کی ہیں۔حقیقت امر یہ ہے کہ مرحومہ بہن کے لئے ایک ضغیم کتاب لکھنے کی ضرورت ہے۔انشاءاللہ۔ فی الحال یہی ٹوٹے پھوٹے الفاظ قبول فرمائیں۔
گر قبول افتد زہے عزت و شرف
قارئین! مرحومہ و مغفورہ کو فاتحہ اور دعائے مغفرت کو یاد رکھیں۔
احقر الاکونین
سخاوت حسین
٭٭٭