دینی امور میں دادا گیری کا تصور!!!

0
365
Dr-sakhawat-hussain-sindralvi
ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

دینی مراکز،مساجد، مدارس،مکاتب اور دینی پروگرامز میں بلاتفریق فرقہ دیسی کمیونٹیز میں دادا گیر ی کا تصور عرصہ دراز سے جزوِ لا ینفک بن چکا ہے۔اس دادا گیری کے بڑے وکٹمز علمائے کرام،رجال دین، مخلص ڈونرز، نسل نو اور وفادار کارکن بنتے ہیں۔کچھ اداروں میں تو ممبر شپ کے عفریت کے ذریعے اور کچھ میں ٹرسٹی شپ کی دھونس سے، کچھ میں ڈائریکٹر شپ کے رعب سے کچھ میں دولت کے بل بوتے پر اور کچھ میں فیملی ممبرز کی بہتات کے باعث اداروں کے نصب العین کی اینٹ سے اینٹ بجائی جاتی ہے۔یہ رجحان روز بروز گھٹنے کی بجائے بڑھتا جا رہا ہے اگر اس کی مثالیں بیان کی جائیں تو کلیجہ منہ کو آ جائے گا۔مثلا میرے ایک قریبی دوست کی صاحبزادی نے مجھے یہ بیان کر کے حیران کر دیا کہ انکل میرے والد کی تدفین ایک قبرستان میں اس لئے نہیں ہو رہی کہ ہم نے کسی اور ادارے سے مربوط فیونرل ہوم کی سروس کیوں لے لی؟ یا ایک ادارے میں غسل و کفن میں اس لئے دیر کر دی گئی کہ مرحوم کے ورثا بروقت پیمنٹ نہ کر سکے تھے۔علمائے دین کے ساتھ انتظامیہ کے بدترین سلوک کی مثال امریکہ کی ریاست ایلے نائے میں اس وقت دیکھنے میں آئی۔جب نجف کے ایک بزرگ مجتہد آیت اللہ سید محمد حسین جلالی کے منہ پر ایک جنازے کے دوران ایک کمیونٹی لیڈر نے تھوک دیا۔یہ سفید ریش مجتہد اس دن سے لے کر 28 سال تک خانہ نشین رہے اور جب انہوں نے وفات پائی تو وصیت فرمائی کہ فلاں کمیونٹی کا کوئی شخص میرے جنازہ میں شرکت نہ کرے۔
قارئین! مستند علما کس قدر جہلا کے سامنے مجبور ہو جاتے ہیں؟ ایسی بیہودہ حرکات پوری دنیا میں پھیل چکی ہیں۔اس سال 21 رمضان المبارک کو علی پور ضلع مظفر گڑھ میں ایک امام بارگاہ میں ایک نوجوان مستند عالم دین علامہ ڈاکٹر سید محمد نجفی کو کرسی پر بیٹھنے کے بعد مجلس پڑھنے سے روک دیا گیا۔میں وثوق سے کہتا ہوں روکنے والے صاحب کو وضو کا طریقہ بھی نہیں آتا ہوگا۔نہ اسے کلمہ شہادت یا نماز درست پڑھنی آتی ہوگی۔امثال رمضان المبارک میں یکم رمضان سے لے کر آج 25 رمضان تک بغیر کسی بریک کے تین مختلف ریاستوں میں رہنے والے عقائد میں بعد المشرقین کے حامل تین افراد نے راقم الحروف کے خلاف کردار کشی کی اخیر کر دی۔ان تینوں کا مدعا یہ تھا کہ اس ادارے سے مجھے بے دخل کرنا چاہتے تھے جس ادارے میں انہوں نے کبھی ایک پیسے کی مدد نہیں کی۔ماں بہن کی گالیاں، مغلظات اور بازاری زبان استعمال کر کے یہ چاہ رہے تھے کہ میں وہ میدان چھوڑ دوں جس میں پورے 20 سال محنت کر کم از کم 2 نسلیں بچا لیں ہیں۔ایسے لگتا ہے کہ پوری دنیا میں رجال دین کے خلاف کردار کشی کی مہم منظم طریقہ سے چلائی جا رہی ہے۔قارئین! مجھے مثنوی افتاد مند ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں کم از کم بیسیوں مثالیں درج کرتا جس سے انسانیت کو شرم سے منہ چھپانے کی جگہ نہ ملتی۔اختصار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس امید پر کالم کے آخر مندرجات لکھ رہا ہوں کہ دینی اداروں اور پروگرامز میں سے ہمیشہ کے لئے دادا گیری کا خاتمہ ہو جائے۔1:میرے استاد بزرگوار مولانا غلام نبی مرحوم کو میرے رشتہ داروں نے اس لئے مسجد کی امامت سے فارغ کر دیا تھا کہ انہوں نے پیپلز پارٹی کے جلسہ میں تلاوت قرآن کرنے سے انکار کر دیا تھا جبکہ یہ ان کے فرائض میں کبھی بھی شامل نہ تھا۔
2 :شکاگو سے مولانا شہریار عابدی کو اس لئے کینیڈا بدر ہونا پڑا کہ ارباب نے معاونت سے انکار کر دیا تھا۔
3:مولانا سید علی مہدی دہلوی کو اس لئے بفلو سے ترک امریکہ کرنا پڑا کہ ان کا ادارے کے سربراہ سے اختلاف ہو گیا تھا۔
4:میرے ذاتی گرین کارڈ میں 4 سال کا عرصہ لگ گیا، اس لئے کہ میری مناسب رہنمائی نہیں کی گئی تھی اور کچھ حاسد، ہم منصب احباب نے مہربانیاں فرمائی تھیں۔
5 :بیسیوں جگہ پر دین کے حروف ابجد سے ناواقف ذاتی تعلقات کی بنیاد پر منبرو محراب پر قبضہ کئے دکھائی دیتے ہیں اور علما و فضلا و ماہرین فن در بدر کی ٹھوکریں کھاتے دکھائی دیتے ہیں۔
اگر اداروں کے نظام اور پروگرامز کے سیٹ اپ کو تبدیل نہ کیا گیا تو محرومیاں اور بڑھیں گی اور وہ کمیونٹیز جو مراکز دین سے اصلاح کی طالب ہیں انہیں وہاں سے فتنہ و فساد ملے گا ، اس کا سب سے بڑا نقصان نسل نو کو ہوگا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here