آج دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیمیں ،انصاف کے ادارے اور اخلاقیات کا راگ الاپنے والی تنظمیں فلسطینیوں پر ظلم کے خلاف خاموش ہیں۔ اسرائیلی زائنسٹوں کی کھلی دہشت گردی پر خاموش ہیں۔ انگریزوں کا کتا مرنے پر احتجاج کرنے والے اور والیاں ، بیت المقدس کی بے حرمتی اور اسرائیلی درندگی پر چْپ ہیں۔ پاکستان میں موجود انگریزوں کی ہڈی یافتہ این جی اوز کے سروں پر جوں تک نہیں رھینگی ، انکی خاموشی بتاتی ہے کہ یہ ہڈی ڈالنے والوں کے خلاف نہیں بولیں گے۔ کیونکہ انکے آقا اور مالک ناراض ہوسکتے ہیں۔ انکے نزدیک انسان صرف یہودی ، ہندو اور عیسائی ہیں۔ آج مسلمان لیڈرشپ سے محروم ہیں۔ ایک ایک کرکے تکہ بوٹی کی طرح ہمیں کاٹا جارہا ہے۔ عورتوں ، بوڑھوں اور بچوں کی تذلیل کی جارہی ہے۔ نوجوانوں کو گولیوں سے بھونا جا رھا ہے۔
قبل اوّل کی بے حرمتی کی جارہی ہے۔ اور غیرت مسلْم خاموش ہے۔ عرب اپنے بچوں کے قاتل اسرائیلیوں سے معاہدے کررہے ہیں۔ ان حالات میں ہر مسلمان پر اسرائیل کی جارحیت کے خلاف جہاد ہر مسلمان پر فرض ہے اگر ظلم کے خلاف اگر کوئی نوجوان اٹھتا ہے تو دہشت گرد، وحشت کے خلاف کو بولتا ہے تو extremist۔جن کے سامنے انکے ماں باپ ذبیح کردئیے جائیں ، بہنوں کو اُٹھا کر لے جایا جائے۔ بچوں کے سینوں کو گولیاں مار دی جائیں، گھروں سے بیدخل کردیا جائے۔ گھر اور دوکانیں بموں سے اْڑا دی جائیں۔ نہتے اور معصوم لوگوں پر کارپیٹڈبمباری کی جائے۔ تو ان پر ظلم کے خلاف اُٹھنے والے ان پڑھ گنوار دہشت گرد اور مظلوم اور معصوموں کو گاجر مولی کی طرح کاٹنے والے پڑھے لکھے تہذیب یافتہ۔ اگر یہ مجبور ہو کر بندوق نہ اٹھائیں تو کیا کریں۔ خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر فلسطینیوں کے پاس بندوق رکھنے کی اجازت ہو تو اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹنے میں دیر نہ لگے۔ظالم اسرائیل، وحشی اسرائیل فلسطینیوں پر آنسو گیس،ربڑ کی گولیاں،واٹر لینن، گر نیڈز کا آزادانہ استعمال، ماہ رمضان میں تراویح کے دوران مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی اور اسرائیلی کی وحشت۔تمام مسلمان لیڈر بے زبان اور بے شرم۔ ترکی کے صدر طیب اردگان کا کہنا ہے کہ مقدس شہر اور مسجد اقصی پر حملیھم سب پر حملے ہیں۔ ظالم کے سامنے کھڑا ہونا ہر مسلمان فرد کی ذمہ داری ہے۔ اسرائیل ظالم اور دہشت گرد ریاست ہے۔ ہمارے قبلہ اوّل اور تین مذاہب کے مقام القدس سے اشتعال انگیز خبریں آرہی ہیں۔ جدید ہتھیاروں سے لیس صیہونی فوج فلسطینیوں کے جذبہ ایمان کے آگے بے بس۔ ہزاروں سال سے اپنے گھر، وطن اور اپنے مقدمات کا تخفظ کرنے والے فلسطینی قابل تحسین ہیں۔ جو اسرائیلی بربرئیت کے خلاف کھڑے ہیں۔ مقدس شہر القدس کی آبرو،وقار اور عزت و تخفظ ہر مسلمان پر فرض ہے۔ القدس پر حملوں کا ہدف نی صرف وہاں کے مسلمان ہیں بلکہ اس کا مخاطب مکہ اور کعبہ کا طواف کرنے والے اور مدینہ میں خاظر سب مسلمان بھی ہیں۔ ان حملوں کا مخاطب، استنبول،دیابکر، بغداد ،قاہرہ،اسلام آباد، جکارتہ، کوالالمپور، باکو اور بوسنیا کا ہر مسلمان ہے۔ بے شعور، بد اخلاق،حقوق سے عاری اور مقدسات کی بے ادبی کرنے والے اسرائیل کے سامنے کھڑے ہونا ،خود کو انسان کہلانے والے ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔
تہذیب کا رونا رونے والے یورپ اور امریکہ میں مسلمانوں خلاف نفرت کے جذبات اور پراپگنڈہ فرانس کی حکومت کا گستاخانہ خاکوں کو سپورٹ کرنا۔مسلم مخالف ایجنڈے کے ساتھ کھڑے ہونا اس امر کی عکاس ہے کہ انکے نزدیک اخلاقیات کا اپنا معیار ہے ۔
تہذیب یافتہ یورپ اسلامو فوبیا ، حجاب اور برقع کے خلاف سب سے آگے ہے۔ امریکہ اور یورپ میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف گوروں میں شدت پسندی ہے لیکن ہمیں شدت پسند کہا جاتا ہے۔ آج سے ایک چودہ سو سال پہلے مسلمان سپاہیوں کو احکام دئیے جاتے ہیں کہ جنگ میں کی بچے بزرگ اور عورت جو نہیں مارا جائے گا۔کسی درخت کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔کسی مذہبی پیشوا جو نقصان نہیں پہنچایا جائے کسی گرجا گر کو نہیں گرایا جائے گا۔یہ اسلامی اقدار ہیں جو کسی دوسرے مذہب میں نہیں۔
کیا یہودیوں اور کرسچنوں کی بھی کوئی اخلاقیات ہیں۔ کشمیر سے لیکر شام ، یمن سے لیکر لیبیا۔ افغانستان سے لیکر عراق۔ انکے ظلم اور وحشت کی داستانیں ہیں۔ جو بیان سے باہر ہیں۔ یہ انسانیت کے نام کا ڈھنڈورا پیٹنے والے ظالم جانورہیں۔ اسرائیل امریکہ اور یورپ کا پالتو کتا ہے۔ جس کا جب جی چاہئے۔ فلسطینیوں پر لشکر کشی کر دیتا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ یو این کا کردار انتہائی غلیظ اور گھٹیا ہے،یو این او مسلمانوں کے خلاف ذائنسٹوں کی پروردہ ، مسلمان مٹاؤ آرگنائزیشن ہے۔
او آئی سی انکی باندی ہے۔ عربوں نے اپنی غیرت اسرائیل اور امریکہ کے آگے گروی کر رکھی ہے۔ ہمارے حکمران ھمیشہ سے انکے دلال رہے ہیں۔ کبھی اسکامی اور کبھی فلاحی ریاست کے نام پر عوام کو دھوکہ دیتے رہے ہیں اور اب ریاست مدینہ کے نام پر عوام جو بیووقوف بنایا جارہا ہے۔ اسکے مقابلہ میں پاکستانی عوام ھمیشہ سے فلسطینیوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ ترکی کے صدر طیب اردگان ایک جرآت مند لیڈر ہیں جو کھل کر اسرائیلی جارحیت کے خلاف ہر فورم پر بولتے ہیں۔ تاریخ میں لکھا جا چکا کہ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں مسلمانوں کے قبلہ اول مسجد اقصی پر اسرائیلی یہود و نصارہ حملہ آور تھے نہتے مردوں ،پردہ دار عورتوں اور معصوم بچوں اور ہماری بچیوں پر گولیاں بر سا رہے تھے گولیوں کی بوچھاڑ کی گھن گرج تو بہت تھی مگر اللہ پاک گواہ ہے کے تلاوت قرآن میں کوئی تعطل نہیں آیا۔اور ان گولیوں اور دھماکوں کی آواز پر تلاوت قرآن غالب رہی تھی۔ افسوس کہ وہاں یہ ظلم جاری تھا اور عین اسی وقت سعودیہ عرب میں موجود 60 اسلامی ممالک کی افواج بنانے کے دعوے دار سعودی حکمران اور 60 اسلامی ممالک میں واحد ایٹمی طاقت رکھنے والے ملک پاکستان کے آرمی چیف اور وزیر اعظم وہاں بیٹھ کر کاروباری معاہدے فرما رہے تھے۔ اپنے اپنے مفادات کیلیئے مختلف یاداشتوں پر دستخط کر رہے تھے سرکاری سطح پر صدقہ فطرہ زکات و خیرات جمع کر رہے تہے۔ وہاں مسجد اقصی کا گھیراؤ کیا جا رہا تھا۔
اور یہاں کعبہ کا طواف کیا جارہا تھا۔مسلم حکمران یورپ ، امریکہ میں داد عیش کرتے ہیں انکے شہزادے بہادر شاہ ظفر اور مغلیہ شہزادوں کیطرح عیاشی کو اپنا مسکن سمجھتے ہیں۔ لیکن ہمارے بچے کٹ رہے ہیں ، ہماری بیٹوں کے سروں سے دوپٹّے نوچے جارہے ہیں ، نوجوانوں کے سروں اور سینوں میں گولیاں پیوست کی جاری ہیں۔ بوڑھی عورتوں ، بوٹی مردوں اور چھوٹی بچوں کو گھسیٹ کر وحشت کا منظر پیش کیا جارہا ہے۔ مگر ھم قراردادوں سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ غیرت مسلم مر چکی ہے۔ مسلمان کا خون ارزاں ہو چکا ہے۔ ظلم بہت ہو چکا۔ پیمانہ صبر لبریز ہو چکا۔حالات بتاتے ہیں کہ انشاء اللہ عنقریب نوجوانوں کی فوج بیدار ہوگی جو ان سب کو خش و خاشاک کیطرح بہا کے لے جائے گی۔انگریز کے یاروں اور انکے کتے یہودیوں کو کہیں جائے پناہ نہیں ملے گی۔انشاء اللہ!
٭٭٭