آداب دعا (حصہ دوئم)

0
39
سید کاظم رضوی
سید کاظم رضوی

محترم قارئین کرام آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا کا سلام پہنچے ،عید میلا د النبی صل اللہ علیہ وسلم آپ سب کو مبارک ہو اس بابرکت مہینے میں اللہ سے مانگ لیا جائے جو چاہے مانگو رحمت اللہ العالمین اس مہینے دنیا میں تشریف لائے ان کے صدقے ہر مراد پوری ہوگی ،ان شا اللہ ۔دعا عربی زبان کا لفظ ہے اس کا معنی ہے پکارنا۔ عموما یہ لفظ کسی حاجت یا ضرورت کے وقت پکارنے میں استعمال ہوتاہے۔اللہ تعالیٰ نے اُمت محمدیہ کو دعا مانگنے کا حکم دیا یہ اس اُمت کا خاص اعزاز ہے ورنہ حضرت کعب احبار کی روایت کے مطابق پہلے زمانہ میں یہ خصوصیت انبیا کی تھی۔ انبیا لوگوں کے لیے دعا کرتے اللہ تعالیٰ قبول فرماتا اور اُمت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ خصوصیت ہے کہ یہ حکم تمام امت کے لیے عام کر دیا گیا ہے اب ہر شخص دعا مانگے۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے ارشاد نبوی منقول ہے:یعنی دعا مومن کا ہتھیار ہے۔ہتھیار صحیح کام تب ہی دکھاتا ہے جب ہتھیار بھی تیز ہو اور چلانے والا بھی طاقتور ہو۔دعا طاقتور کیسے بنے اس کے لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ آداب سکھائے اور دعائوں کے الفاظ سکھائے جو مسنون دعائیں کہلاتی ہیں اور دعا مانگنے والا کیسے طاقتور بنے اس کے لیے دعا مانگنے کے مسنون طریقے سکھائے۔دعا مانگنے کا اصل اصول اللہ تعالی نے سورہء اعراف کی آیت نمبر55 میں بیان فرمایا:یعنی تم اپنے رب سے دعا کیا کرو عاجزی کے ساتھ اور پوشیدہ طریقہ سے۔ بے شک اللہ تعالی حد سے آگے بڑھنے والے کو پسند نہیں فرماتا۔
ہر چند کہ انسان بڑا خطائیں کرجانے والا ہے فرائض سے غفلت گناھوں کی دلدل میں پھنس کر بھی جس کو ھدایت ہوجائے تو وہ اپنی اصلاح کی کوشش ضرور کرتا ہے بس جب دل پسیج جائے کہیں سے کوء راہ سجھاء نہ دے اس وقت وہی رب کریم یاد آتا ہے اور کیوں نہ آئے ستر مائوں کے برابر محبت کرنے والا ہے تو یاد بھی اس کی ہی آئے گی ۔یوں تو مانگنے کا کوء نہ وقت ہے نہ اہتمام جب لوگ چاہیں مانگیں جیسے چاہے اپنا کشکول پھیلائیں پھر بھی علمائے کرام نے احادیث کی روشنی میں طریقے وضع کیئے جو سب ہی درست ہیں جب اللہ نے مانگنے پر پابندی نہ لگائی رحمت کے در کھول رکھے ہیں تو انسان کون ہوتا ہے روکنے والا اور ٹوکنے والا !
لیکن جو بھی اصول وضع ہوئے ان کا مقصد احترام تھا اور آداب کہ انسان دنیاوی سربراہوں کی خدمت میں حاضر ہو ایک نوکری کرنے انٹرویو دینے جائے تو آداب کے ساتھ عرضی کے ساتھ جاتا ہے کہاں رب العالمین کی درگاہ میں دست سوال دراز کرے اور آداب نہ بجالائے یہ تو اچھی بات نہیں خیر مجھے مندرجہ زیل مقالہ سہارنپور علمائے دیوبند نے مرتب کیا انتہاء پسند آیا آپ چاہیں تو اپنی حاجات اس طریقہ سے بھی بارگاہ خداوندی میں پیش کرسکتے ہیں اس کیلئے درج زیل ھدایات پڑھیں ۔ دعا کے آداب مختلف احادیث میں وارد ہوئے ہیں، ان احادیث کی پوری عبارت نقل کرنے کے بجائے صرف مضمون حدیث پر اکتفا کیا جارہا ہے، وہ آداب یہ ہیں: دعا پاک و صاف باوضو ہوکر کرے،دعا کے وقت رخ قبلہ کی طرف ہو،دعا سے پہلے کوئی نیک کام کرے ، دو زانو ہوکر بیٹھے ،دعا کے اول و آخر میں اللہ تعالی کی حمد و ثنا کرے، اسی طرح اول و آخر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجے ،دعا کے وقت دونوں ہاتھ پھیلائے اور دونوں ہاتھوں کو مونڈھوں کے برابر اٹھائے ،اپنی محتاجگی وعاجزی کا اظہار کرے،آسمان کی طرف نظر نہ اٹھائے ،اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنی اور صفات عالیہ ذکر کرکے دعا کرے ،دعا میں قافیہ بندی کے تکلف سے بچے، جس قدر ممکن ہو حضور قلب کی کوشش کرے اور قبولیت کی امید قوی رکھے ،دعا میں الحاح و اصرار کرے،کسی گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے ،کسی محال چیز کی دعا نہ کرے،اللہ تعالیٰ کی رحمت کو صرف اپنے لیے مخصوص نہ کرے ،دعا میں اول اپنے لیے دعا کرے پھر اپنے والدین اور دوسرے مسلمان بھائیوں کو شریک کرے ،دعا کے بعد آخر میں آمین کہے اور دونوں ہاتھ اپنے چہرے پر پھیرلے ،مقبولیت دعا میں جلدی نہ کرے۔اللہ اکبر کیا خوبصورت تحریر و آداب دعا بیان کیئے ہیں، قارئین کرام میں دعاگو ہوں آپ کے حق میں اُمت مسلمہ کیلئے کہ اللہ پاک آپ کی جائز حاجات پوری فرمائے آمین ثم آمین
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here