فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
73

محترم قارئین! جس طرح آج کل نئی سے نئی جسمانی بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں اسی طرح سے نئی روحانی بیماریاں بھی رونما ہو رہی ہیں اور عظمت مصطفیٰۖ کو کم کرنے کی ناپاک اور ناکام نئی سے نئی سکیمیں سوچی جارہی ہیں۔ آج کل نئے پڑھے لکھے لوگ ایک عجیب وغریب بیماری میں مبتلا ہیں کہ حضور علیہ السلام کی دو حیثیتیں ہیں۔ ایک تو شخص یعنی آپ کی صفت بشری اور دوسری رسالت محمدی لہٰذا حضور علیہ السلام جو بات بطور رسول فرمائیں وہ تو قابل عمل اور لازمی ہے مگر جو بات بطور بشر یا شخص فرمائیں اس کا ماننا یا کرنا لازمی نہیں ہے بس یہی فرق گمراہ کن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا درس آیة کریمہ میں فرمایا ہے۔ ترجمعہ:”نہیں ہیں محمد مگر رسول”(سورہ فتح پارہ نمبر26) یعنی آپ ہر رنگ اور ہر آن میں رسول ہیں۔ کوئی ایسا لمحہ حضور پر نہیں گزرتا جس میں آپ رسول نہ ہوں۔ مثلاً آپ چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے رسول ہیں بلکہ ہر رسول خدا کا نمائندہ ہے اس لئے اس کی اطاعت ہر حال میں لازم ہے جیسے کہ قرآن کریم میں ارشاد الٰہی ہے۔ ترجمعہ:”اور نہیں بھیجا ہم نے کسی کو رسول بنا کر مگر یہ کہ اس کی اللہ کے حکم سے اطاعت کی جائے۔”(پارہ نمبر5سورہ نسائ) مزید فرمایا: ترجمعہ:”یاد کرو جب تیرے رب نے فرمایا: بے شک میں بنانے والا ہوں زمین میں خلیفہ” (پارہ نمبر1سورہ بقرہ) جب نبی آیا ہی مطاع بن کر ہے تو اطاعت لازم ہوگی ہمیں کیا معلوم کہ نبی یہ بات کس حیثیت سے فرما رہا ہے۔ رسول صرف رسولۖ ہے اور ہمارے نبی حضرت محمد مصطفیٰۖ رسول اعظم ہیں۔ باقی انبیاء علیھم السلام اللہ کے نمائندے ہیں مگر حضور نمائندہ اعظم ہیں۔ نمائندہ کی سوچ اصل کے منشاء کے مطابق ہونی چاہئے، تحویل قبلہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ”ہم دیکھ رہے ہیں بار بار تمہارا آسمان کی طرف منہ کرنا تو ضرور ہم تمہیں پھیریں گے اس قبلہ کی طرف جس میں تمہاری خوشی ہے۔” اور مزید فرمایا: ترجعہ:”اور اے محبوب تم پہلے جسے قبلہ پر تھے ہم نے وہ اس لئے مقرر کیا تھا کہ دیکھیں کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹے پائوں پھر جاتا ہے اور بے شک یہ بھاری تھی مگر ان پر جنہیں اللہ نے ہدایت کی۔” اسی طرح وہ حدیث جیسے ملا جیون رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی مشہور کتاب اصول نور الانوار میں نقل فرمایا ہے۔ کہ حضورۖ ابتدائی دور میں نماز جوتے پہن کر پڑھتے تھے کہ ایک دن سرکار دو عالمۖ مسجد میں تشریف لائے اور نماز شروع فرما دی۔ نماز ہی میں جبریل امین تشریف لائے اور حضور سے عرض کیا یارسول اللہ! آپ نعلین شریف اتار دیں کیونکہ آپ مقدس ہیں۔ معطر ہیں۔ معنبر ہیں۔ مطھر ہیں اور منور ہیں مگر نعلین شریف کو کچھ پلیدی لگ گئی ہے۔ حضورۖ نے نماز ہی میں اپنے نعلین شریف اتار دیئے۔ چنانچہ تمام صحابہ کرام علیھم الرضوان نے بھی اپنے اپنے جوتے اتار دیئے۔ سرکار دو عالمۖ نے فرمایا: تمہیں کیا ہوا کہ تم نے جوتے اتار دیئے تھے صحابہ علیھم الرضوان نے عرض کی حضور! ہم نے آپ جناب کو دیکھا تھا کہ آپ نے نعلین شریف اتار دیئے ہیں تو ہم نے بھی اتار دیئے۔ حضورۖ نے فرمایا: میرے پاس تو جبریل امین تشریف لائے تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ تمہارے نعلین کے ساتھ پلیدی لگی ہوئی ہے۔تو تمہارے پاس کون آیا تھا۔ صحابہ نے عرض کی حضور ہمیں جبریل سے کیا واسطہ وہ آئے یا جائے ہمیں تو ادائے مصطفیٰۖ سے واسطہ ہے۔ جو حضور کریں گے ہم بھی وہی کریں گے۔ ” باقی صحابہ کرام کو قطعی طور پر یہ خیال نہیں آیا کہ اگر آپ غیب جانتے ہوتے تو آپ کو جبریل کیوں بتاتے، وہ جانتے تھے حکمت کو نمائندہ کا قول اصل کے فرمان کے مطابق ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ترجعہ:”اور نہیں بولتے نبی اپنی خواہش سے مگر وہ جو آپ کو وحی کی جاتی ہے”۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے خود حضور علیہ الصلوٰة والسلام کی ضمانت دی ہے کہ میرے حبیبۖ اپنی مرضی سے نہیں بولتے بلکہ میری مرضی سے بولتے ہیں۔ اور ان کا ہر قول میرا قول ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے: ترجعہ: اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے نہیں جاری ہوتا میری زبان پر مگرحق یعنی میری زبان حق ہی بولتی ہے۔ حدیث مبارکہ میں مزید فرمایا ہے ترجعہ: حضور علیہ السلام وحی لکھوا رہے تھے کہ اچانک آپ کے مقدس اور نورانی چہرہ پر غصہ کے آثار نمایاں ہوئے تو کاتب وحی نے کتابت بند کردی۔ حضور نے پوچھا:لکھنا کیوں چھوڑ دیا ہے عرض کیا حضور آپ غصہ میں تھے تو غصے کی حالت میں بعض الفاظ بے ساختہ نکل جاتے ہیں جن پر بعد میں پریشانی ہوتی ہے۔اور معذرت کرنی پڑتی ہے۔ حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: میں جس حالت میں بھی ہوں اللہ کا رسول ہوں میری زبان سے صرف حق ہی نکلتا ہے۔ لہذا میں جس حالت میں بھی ہوں لکھتے چلے جائوں، نمائندہ کا عمل اصل کا عمل کہلائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ترجعہ: ”نہیں پھینکا آپ نے جب آپ نے پھینکا۔ بلکہ اللہ تعالی نے پھینکا۔ اللہ تعالیٰ کی عادت کریمہ ہے کہ جب کوئی الزام نبی پر آتا ہے خداوند کریم اپنی ذات پر لیتا ہے۔ مثلاً حضرت یوسف علیہ السلام نے بنیامین کو روکنا تھا تو تدبیر اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا کیونکہ یہ تدبیر خلاف واقعہ تھی اور ان کے بھائیوں کو خوامخواہ چور کیا گیا جبکہ ان کو علم نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یہ تدبیر یوسف کی نہیں بلکہ میری تھی۔ اسی طرح سر اور آنکھوں میں مٹی ڈالنا منصب رحمت کے خلاف تھا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یہ مٹی میں نے ڈالی ہے نبی نے نہیں ڈالی، اللہ تعالیٰ حقائق کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here