” مان گئے استاد”

0
51
عامر بیگ

خیبر سوسائٹی کہنے کو تو خیبر پختونخواہ کے باشندوں کو ریپریزینٹ کرنے کے لیے بنائی گئی تھی مگر مستفید پورے پاکستان کے عوام ہو رہے ہیں، اس کے روح رواں زمان آفریدی اور تاج اکبر کے لیے خراج تحسین ہے کہ جو آئے دن کوئی نہ کوئی پروگرام ارینج کر لیتے ہیں ،آج کا یہ پروگرام تو عتیق صدیقی صاحب کی محبت سے ارینج کیا گیا، شاہد کامریڈ کا بھی اس میں پورا پورا ہاتھ ہے جس میں ناصر علی سید کی استقبالیہ پذیرائی اور ڈاکٹر محمد شفیق کے دوسرے مجموعہ کلام صدائے بے نوائی کی تیسری دفعہ تقریب رونمائی اور استاد محترم ناصر علی سید کے ہاتھوں دوسری دفعہ رونمائی ہو رہی ہے جس کے لیے وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ اکیس دسمبر دو ہزار انیس کو حلقہ ارباب ذوق نیو جرسی کے پلیٹ فارم سے میرے گھر میں بدستِ ناصر علی سید صدائے بے نوائی کی رونمائی کروا چکا ہے ،آج ایک بار پھر ڈاکٹر شفیق کو مبارکباد کہ ایسی شفقت و محبت قسمت والوں کو ہی ملتی ہے جیسی ڈاکٹر شفیق کو ملی ہے ۔ صاحب کتاب جناب ڈاکٹرمحمد شفیق سے میرا تعلق شعر و ادب کی وجہ سے ہی جڑا تھا مگر اب وہ حلقہ یاراں میں میرے مخلص ترین دوستوں میں شمار ہوتے ہیں ،نام کی طرح شفیق لیکن اپنی بات اور اشعار میں وزن رکھنے والے ڈاکٹر محمد شفیق سے جب فون پر لمبی لمبی باتیں ہونا شروع ہوئیں تو کہنے لگے کہ عامر تم کالم لکھو۔ ڈاکٹر صاحب ان دنوں اسٹیبلشمنٹ کے ناقد کی حیثیت سے جانے جاتے تھے ہر محفل میں یہی ایک ٹاپک چھیڑ بیٹھتے لیکن وقت نے ثابت کر دیا کہ ڈاکٹر صاحب دانائے راز ہیں، آج سب اس بات کی تائید کریں گے۔ میں ڈاکٹر صاحب کے مجموعہ کلام صدائے بے نوائی میں ان کی رومانٹک شاعری کی بجائے ان کی مزاحمتی شاعری بارے کچھ عرض کرنا پسند کروں گا صدائے بے نوائی میں منقبتِ جناب حسین میں سے ایک شعر ملاحظہ فرمائیں، کہتے ہیں کہ !
مرے جہاں میں اندھیرے ہیں پھر یزیدیوں کے
خدا کرے کہ یہاں پھر سے آج آئے حسین
ڈاکٹر صاحب عرصہ دراز سے جانتے اور بتاتے چلے آ رہے ہیں کہ پیارے پاکستان میں یزید دندناتے پھرتے ہیں پھر کہتے ہیں کہ
سارے ہی یہ فنکار دکھاوے کے لیے ہیں
اس کھیل کے پیچھے ہیں اداکار ہی کچھ اور
کیسے خوبصورت انداز میں ملکی زبوں حالی کے پیچھے اصل ہدایتکاروں بارے رہنمائی فرما دی اور اقتدار عالیہ کا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا ڈاکٹر صاحب کے ہمدم دیریِنہ، احمد فراز کہتے ہیں!
ستم تو یہ ہے کہ عہدِستم کے جاتے ہی
تمام خلق میری ہم نوا نکلتی ہے
ہر چند کہ میری پسندیدہ ترین شاعرہ پروین شاکر نے بھی یہ بات زیادہ بہتر شاعرانہ پیرائے میں کہی ہے!
بستی میں جتنے آب گزیدہ تھے سب کے سب
دریا کا رخ بدلتے ہی تیراک ہو گئے
اور ان کے میرے اور ہم سب کے سیدی ناصر علی سید نے بھی کچھ ایسی ہی بات کی ہے کہ
اب تو ہر شخص نے چہرے پہ لہو پہنا ہے
کون مقتل میں تھا اس خاک بسر سے پہلے
تو میں بتا دوں کہ وہ ڈاکٹر شفیق صاحب ہی تھے جو یہ سب ببانگ دہل کہا کرتے تھے اورتب ہمیں عجیب لگتا تھا اب ہمیں اپنے آپ پر غصہ اور ڈاکٹر شفیق پر پیار آتا ہے بلکہ مجھے تو ایک فلم کا ٹائٹل یاد آگیا ہے کہ مان گئے استاد ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here