”بے چینی اور افراتفری“

0
121
شبیر گُل

 

 

“نہ آر نہ پار ،سب بیکار”
اپوزیشن کے لاہور جلسہ کی ناکامی ہوئی۔ نہ آر ہوا نہ پار۔البتہ پنجاب کے خلاف بکواس کرتا ہے ، کوئی ادراروں کو چیلنج کرتا ہے۔ کوئی اپنی کرپشن کی پکڑ پر روتا ہے۔ کوئی اپنی نالائقی چھپانے کےلئے واویلا کر رہا ہے۔ قوم کو کبھی شیرکاٹتا ہے اور کبھی ٹائیگر۔ اور کبھی تیر کہا کر زخم سہلاتی ہے۔ مگر اپنی قومی حمیت اور غیرت ح±ب الوطنی کو جگانے کی کوشش نہیں کرتی۔ہر آنے والا کرپشن کی نئی داستانیں رقم کرتا ہے۔ گزشتہ حکمرانوں پر کرن طعن کرکے اپنی کرپشن اور نااہلی چھپانے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔ یہ لوگ جب بھی اپوزیشن میں ہوں اداروں اور اسٹبلشمنٹ پر برستے ہیں۔ اقتدار کی ہڈی ملنے پر بھونکنا چھوڑ دیتے ہیں۔ ایم کیو ایم کے دہشت گرد ایکبار پھر مہاجر اور اردو اسپیکنگ کارڈ کھلنے کے کئے صف بندی کررہے ہیں۔ کراچی کے ا±جڑے چمن پر ایک بار پھر شب خون مارنے کی تیاریاں شروع کردی گئی ہیں۔ ہر دس سال بعد ایم کیو ایم کے دہشت گرد دو تین سال اسٹبلشمنٹ کے تلوے چاٹنے کے بعد، انڈیا کی دلائی شروع کردیتے ہیں۔ آجکل اسٹبلشمنٹ کے کئے اچھے اسٹوڈنٹ کی پریکٹس دھرائی جا رہی ہے۔
ایک چپڑاسی کو وزیر داخلہ، ڈاکو کو اسپیکر پنجاب اسمبلی ،قاتل اور دہشت گرد ایم کیو ایم کو اقتدار میں شامل کرکے آپ نے تہوک کر چاٹنے کا عظیم ریکارڈ قائم کیا ہے۔ پاکستان میں احتجاجی اور منفی سیاست گزشتہ کئی ہفتوں سے جاری ہے۔ مولانا فضل الرحمن ، اور مریم نواز انتہائی غصہ میں ہیں۔ ایک کنویکٹڈ عورت اداروں پر برس رہی ہے۔ مریم صفدر افواج پاکستان کے خلاف جس انداز میں نفرت انگیز گفتگو فرماتی ہیں۔ ہارون رشید کے بقول ایسے محسوس ہوتا ہے کہ کلیجہ چبانے والی عورت ہے۔ ایسی عورت خدانخواستہ کبھی اقتدار میں آئی تو نفرت کا بیج بو دے گی۔ اس کا خاوند سابق آرمی کیپٹن ہے۔ اسکا والد جنرل جیلانی اور جنرل ضیاءالحق کے گملے کی پیداوار ہیں۔ آرمی پر تنقید کرنے سے پہلے اپنے گناہوں کی اور کارگل میں غداری کی معافی مانگیں۔ مولانا مینار پاکستان پر کھڑے ہوکر قرارداد پاکستان کی بات کر رہے ہیں۔ حالانکہ مولانا اور ان کے والد مفتی محمود کہہ چکے ہی ں کہ وہ پاکستان بنانےکے گناہ میں شامل نہیں تھے۔ اور پھر اجیت ڈوئل کے ساتھ ملاقات کی۔ کشمیر کمیٹی کے چئیرمین رہے۔ مگر کشمیر کے جہاد کو جہاد نہیں مانتے رہے۔ مولانا ڈیزل منافقت کے انتہائی درجہ پر ہیں۔ ہر دور میں اقتدار میں حصہ دار مکس اچار اپوزیشن کے لیڈروں کا رخ ، افغانستان ،انڈیا اور امریکہ کیطرف ہے۔ فضل الرحمن ،اچکزئی، مریم ایک پیج ہر ہیں۔ پیپلز پارٹی ،اسفندیار اور دوسرے گروپس کی ڈائریکشن دوسری طرف ہے۔ جلسہ کی ناکامی پر نواز شریف اور مریم انتہائی غصہ میں ہیں۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی آئیندہ مزید بکھری ہوئی نظر آئینگی۔جلسہ کی سیکورٹی ،میوزک اور انتظام میں ن لیگ کہیں نظر نہیں آئی۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ پر برس رہے ہیں ،ان میں ایکدوسرے کو کاٹنے کی دوڑ لگی ہے۔ اچکزئی نے کراچی میں اردو اسپیکنگ اور لاہور میں پنجابیوں کو ب±را بھلا کہا۔مریم نواز اور تمام غیرت مند پنجابی اور قومی لیڈرپنجاب کے خلاف ہرزہ رسائی پر خاموش رہے۔ مولانا فضل الرحمن شکست کی خفت مٹانے کے لئے ان سب پر سبقت لیجانے کی کوشش میں ہیں۔ بلاول زرداری ابھی دو سال پہلے کہتا تہا کہ ضیاءالحق مرحوم نواز شریف کا باپ ہے لیکن آج تھوک کر چاٹ رہا ہے۔ عمران خان نے کتوں کے ساتھ اپنی تصویرکو ٹوئیٹ کیا۔ جس میں اپنے ایک ٹائیگر اور شیرو کے ساتھ دل بہلا رہے تھے۔
غریب شہر ترستا ہے ایک نوالے کو
امیر شہر کے کتے بھی راج کرتے ہیں
وزیراعظم صاحب کو انسانوں پر بھی توجہ دینی چاہئے، مسٹر یوٹرن خان چوروں اور ل±ٹیروں کی سرپرستی میں ریاست مدینہ کے خواب دکھانا چھوڑیں۔ملک میں مہنگائی کے طوفان پر قابو پائیں۔ غریب کی پریشانیاں دور کریں۔ کمر توڑ مہنگائی , بیڈ گورنس،قرضوں کی بھرمارمیں عوام نااہل حکمرانوں اور نااہل اپوزیشن کے درمیان سینڈوچ بنی ہے۔ پی ٹی آئی نے بھی سارے گندے انڈے اور چور ایک ہی ٹوکری میں اکٹہے کر لئے ہیں۔ اپوزیشن اور حکومتی بینچوں پر ایکدوسرے پر کیچڑ اچھالنے اور نیچا دکھانے کا مقابلہ جاری ہے۔ دونوں اطراف چور، ڈاکو اور ل±ٹیرے جمع ہیں جو ملکی امن کو داو¿ پر لگا رہے ہیں۔ عوام مہنگائی اور بلوں کی بھر مار سے پریشان ہیں وزیراعظم صاحب کشمیر کو نظر انداز کرنے کی روش شرمناک ہے جوملک کی سالمیت اور مستقبل کے لئے خطرناک ہے۔ اگر آپکو فرصت ہو توکشمیریوں کے خلاف ہونے والے ظلم پر توجہ فرمائیں۔ قوم نے گزشتہ ڈہائی سال ٹائگر فورس ،کٹے اور مرغی پال اسکیم اور کے انڈوں کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔
ایک بلین درخت،ایک کڑوڑ نوکریاں ،پچاس لاکھ گھر اور تین سو پچاس ڈیم ابھی تک نظر نہیں آئے۔ شائد ایک کڑوڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر تین سو پچاس ڈیموں میں ڈوب گئے ہیں۔ جرنیلوں نے فوج میں سیاسی ونگ بنا کر آرمی کو بدنام کیا ہے۔ افواج پاکستان کو سیاست سے دور رھنا چاہئے۔سیاسی اکھاڑ پچھاڑ سے گریز کرنا چاہئے۔ اگر مداخلت کرنی ہی ہے تو ملک کے نظریاتی تشخص کی خفاظت کرئے۔ سیکولرازم کو پروموٹ نہ کرئے۔
خادم حسین رضوی کے جنازہ نے مستقبل کا ر±خ متعین کردیا۔آنے والے دنوں میں ہواو¿ں کا ر±خ نظریاتی اور مذہبی ٹریک پر ہوگا۔ امریکی انتحابات کے بعد ٹرمپ کے حمائیتی س±پریم کورٹ کے خلاف ریلیاں نکال رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے امریکہ میں بھی افراتفری اور بے چینی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور اس کے حمائیتی الیکشن رزلٹ کو نہیں مان رہے۔ اتوار کو وائیٹ ہاو¿س سے س±پریم کورٹ تک الیکشن رزلٹ کے خلاف ایک بڑی احتجاجی ریلی نکالی گئی۔ جن کا مطالبہ ہے کہ جوبائیڈن کی جیت کو ٹرمپ کے حق میں ٹرن اوور کیا جائے۔ سوموار کو الیکٹورل کالج اپنا ووٹ استعمال کرتے ہوئے جوبائیڈن کو الیکشن کے آخری مرحلہ میں 306 الیکٹورل ووٹ لیکر صدر منتحب کر لیا ہے۔ دوسری طرف امریکن کانگریس کے 106 ممبران نے الیکشن رزلٹ کو ٹرن اوور کرنے کی ریکوزیشن فائل کی ہے۔ جو امریکی ایوان نمائندگان کی طرف سے الیکشن رزلٹ کے خلاف انوکھا اقدام ہے۔ پاکستانی اسٹائل سیاست نے امریکہ میں بھی جگہ بنا لی ہے۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا کشمیر کمیٹی کے چیئرمین رہے۔ مگر کشمیر کے جہاد کو جہاد نہیں مانتے رہے۔ مولانا ڈیزل منافقت کے انتہائی درجہ پر ہیں۔ ہر دور میں اقتدار میں حصہ دار رہے۔
پی ٹی آئی نے بھی سارے گندے انڈے اور چور ایک ہی ٹوکری میں اکٹھے کر لئے ہیں۔ اپوزیشن اور حکومتی بینچوں پر ایکدوسرے پر کیچڑ اچہالنے اور نیچا دکہانے کا مقابلہ جاری ہے۔ دونوں اطراف چور، ڈاکو اور ل±ٹیرے جمع ہیں۔ جو ملکی امن کو داو¿ پر لگا رہے ہیں۔ عوام مہنگائی اور بلوں کی بھر مارسے تنگ ہے۔ نہ تو حکومت کہیں گئی اور نہ ہی حکومتی دیواروں کو آخری دھکا لگا۔قوم بے انصاف معاشرے ،بہوک اور مہنگائی سے جتنا تنگ ہے ا±س سے کہیں زیڈہ احتجاجی سیاست سے بھی تنگ ہے۔
میں گزشتہ کئی کالمز میں لکھ چکا ہوں کہ پی ٹی آئی ، ن لیگ، پیپلز پارٹی ،جمعیت علماءاسلام اور ایم کیو ایم کی پاس ملکی تقدیر بدلنے کا کوئی بھی حل موجود نہیں ہے۔ قوم بار بار انکے اقتدار کو دیکھ چکی ہے۔ یہ یہ تمام مہرے اقتدار میں رہے۔ پی ٹی آئی کے الیکٹیبلز اور وزراءکئی دہائیوں سے مختلف حکومتوں میں رہے۔ لیکن کوئی تبدیلی نہ لا سکے۔ اب پارٹی بدل کر کیا تبدیلی لائینگے۔
پاکستان سے مہنگائی ،غربت،کرپشن اور بے انصافی کا خاتمہ صرف ایماندار اور بے داغ ماضی رکھنے والے ہی کر سکتے ہیں۔ ایسی بے داغ اور ایماندار قیادت صرف جماعت اسلامی کے پاس موجود ہے۔ فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ ووٹ چوروں کو دینا بے یا ایمان داروں کو،غیر ملکی ہاتھوں میں کھیلنے والوں کو یا ملکی سلامتی کے امین اور نظریاتی مخافظ جماعت کو۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here