کل میں جوہانسبرگ میں مارچ2006میں کھیلے جانے والے ساﺅتھ افریقہ اور آسٹریلیا کے درمیان و ن ڈے میچ کا ویڈیو دیکھ رہا تھا۔آسٹریلیا نے بیٹنگ کرکے434رن کا پہاڑ کھڑا کر دیا تھا کہ ساﺅتھ افریقہ کے50اوور میں435رن بنانے کے مواقع صفر نظر آرہے تھے۔جب کہ انکا پہلا کھلاڑی20سے بھی کم رن پر آﺅٹ ہوچکا تھا۔اسکے بعد آنے والے کھلاڑیوں نے بے خوف وخطر چوکے اور چھکوں کی بارش کرکے کھچا کھچ بھرے اسٹیڈیم میں تالیوں اورشاباشیوں کی بوجھاڑ کر رکھی تھی۔ان کا یقین اور حوصلہ دیکھنے کے قابل تھا کہ وہ اپنے سے زیادہ تگڑی ٹیم کا مقابلہ کر رہے تھے۔آٹھویں کھلاڑی پر آﺅٹ ہونے کے بعد لگتا تھا کہ ساﺅتھ افریقہ ہار جائے گالیکن آخری دو کھلاڑیوں نے سکور کو438تک پہنچا دیا اور ایک وکٹ سے جیت گئے اس میچ کی غیر معمولی بات یہ تھی کہ انہوں نے پہاڑ پر نظر ڈالے بغیر پورے اعتماد سے خود پر بھروسہ کرتے ہوئے کھیل کھیلا کہ آسٹریلیا کی چیخیں نکل گئیں اور یقیناً اللہ نے انکا ساتھ دیا آپ کہہ سکتے ہیں بس یہ فرق ہے ہم میں اور دوسرے ملکوں کی ٹیموں میں کہ ہم اپنا کھیل شروع کرنے سے پہلے ہی اللہ پر چھوڑ دیتے ہیں۔جیت کی شکل میں اللہ نے مدد کی ہے اور ہارنے کی صورت میں اللہ کو منظور نہیں تھا۔آپ نے دیکھا ہوگا ہمارے اور انڈیا کے ہر کھلاڑی کو سنچری بنانے پر سجدہ کرتے ہوئے ہمیں اس ابہام سے نکلنے کی ضرورت ہے۔اور اپنے شعور کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے یہاں پر کہتے چلیں کہ معاملہ الٹا ہے اللہ تعالیٰ نے ہم سے شعور چھین لیا ہے اور ایسا ہونے میں ہماری نیت ہے کہ ہم باہر سے کچھ اور اندر سے کچھ ہیں۔
حالیہ مینار پاکستان پر جلسے کی ویڈیو دیکھئے کہ مریم نواز، بلاول، زرداری اور مولانا فضل الرحمن نے کتنا جھوٹ بولا اور ایک افغانی نے لاہوریوں کو ہندوﺅں اور سکھوں کی گٹھ جوڑ سے مثال دی کہ ان تینوں نے حل کر انگریز کو مسلط کروائے رکھا۔مریم نواز کا دعویٰ تھا کہ13دسمبر کا جلسہ آر یا پار ہوگا۔بلاول زرداری چیخ چیخ کر عمران خان کو صلواتیں سناتا رہا میدان میں لاہور والوں کی تعداد کم تھی اسکی وجہCOVID-19 سرد موسم تھا اور شاید عوام بھی ان بدعنوان سیاستدانوں کو جان چکے ہیں۔جن کا ایک ہی مشن تھا کہ ملک میں خلفشاری، بے اطمینانی اور امن قائم نہ ہوسکے یہ گیارہ پارٹیاں ملک دوست نہیں ملک دشمن ہیں۔کبھی وہ فوج کو مورد الزام ٹہراتی ہیں اور کبھی عمران خان کو اچھی بات یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو درمیان میں نہیں لاتیں اگر یہ کوئی اچھا کام کر چکے ہوتے تو انہیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا اس لئے انہیں خود پھر بھروسہ نہیں تو انکا نصیب ہارہی ہے اور جب کوئی بکھر جائے تو ایسا ہی ہوتا ہے ہم یہ نہیں کہتے کہ جب سے عمران آیا ہے سب کچھ ٹھیک ہے جو جنرل باجوہ کہتے ہیں غور کیجئے جونظام پچھلے70سال سے تباہی کی طرف جارہا ہو وہ اتنی جلدی سدھر نہیں سکتا اور جب کہ عمران کے ساتھ کھلاڑی عمران کی طرح نہ سوچیں اور نگراں دوسری ہٹری پر ہو تو عمران کی کامیابی کم نظر آتی ہے۔لیکن اس کی ہمت، نیت اور حوصلے کو سلام کرتے ہیں۔کہ وہ دل برداشتہ نہیں اس کی حکومت کی مثال پاکستان کرکٹ کنٹرول بورڈ کی مانند ہے کہ سب کچھ کپتان کے ہاتھ میں نہیں کہ میدان میں اتر کر کامیابی دلوا سکے جب تک بورڈ کے چیئرمین اور کوچ کھلاڑیوں کا صحیح انتخاب نہ کریں صرف میرٹ پر جانچیں۔تعصب کی عینک پہنے بغیر یہ تعصب کی عینک ہر ادارے میں ہے اور ساتھ ہی بے ایمانی بھی خون میں شامل ہوچکی ہے۔عمران خان کی ٹیم ساﺅتھ افریقہ کی ٹیم بن سکتی ہے اگر کھلاڑیوں کی اچھی ٹریننگ ہو اور وہ ہر لحاظ سے تربیت یافتہ ہوں انہیں خود پر اعتماد ہو مگر یہاں تو مقابلہ ہی دوسرا ہے کہ خود کوچ تربیت کے بغیر ہیں اور چیئرمین کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ کھلاڑیوں کا اعتماد بحال کرنا ہے اس کے بغیر کامیابی ناممکن ہے۔ایک ٹیم ورک کی ضرورت ہے اور ایک سخت اور اچھے کھلاڑی کپتان کی ضرورت ہے جو عمران کے بعد نہیں مل سکا ہے کہ جس کی موجودگی میں دوسرے ملک کی ٹیم بھی دباﺅ میں رہے۔
میڈیا اور مخالف سیاستدان کا یہ دعویٰ بے معنی ہے کہ وہ کرکٹ کے میدان میں کامیاب تھا یا یہ کہ یہ سیاست ہے کھیل نہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کرکٹ ہمیں بہت کچھ سکھاتی ہے۔لیڈر شپ، ٹیم ورک، بردباری اور سلوک کے علاوہ خود پر اعتماد تب ہی اللہ تعالیٰ کامیابی دلاتا ہے اقبال کا یہ شعر اس کی غمازی کرتا ہے۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
کامیابی اور ناکامی کے لئے قسمت کو بھی دوش دیا جاتا ہے لیکن کامیابی کے لئے کہا گیا ہے”میں جتنی محنت سے کام کرتا ہوں اتنی ہی قسمت مجھ پر مہربان ہوتی ہے“ یہ بات تھامس جیفرسن نے کہی تھی جو امریکہ کے تیسرے صدر تھے۔ایسی بہت سی باتیں ہیں جو پڑھنے سے آتی ہیں اور بہت سی ایسی جو سیکھنے سے آتی ہیں بشرطیکہ آپ کی نیت ہو اور خود پر یقین ہو کہ ناممکن کو ممکن کیا جاسکتا ہے۔اگر ساتھ اچھے لوگوں کا ہو اور آپ کے ساتھ چلنے والے ڈاکٹر مارٹن لوتھرکنگ کے ساتھیوں کی طرح ہوں اور یہ سب صرف ایک اور ایک سمت میں سوچیں اور قدم اٹھائیں یہ بات جنرل باجوہ کے لئے کہےنگے کہ انہیں عمران کے ساتھ ایک ہی سمت میں قدم اٹھانا ہوگا اگر ملک ترقی کرے اور عوام صحیح سمت میں سوچیں اس کے لئے انکے اندر علم ڈالنا ہوگا۔تربیت دینا ہوگی اور خود کو سچائی اور ایمانداری کے ساتھ قدم اٹھانا ہوگا۔ہمیں عمران خان سے ہمدردی ہے کہ اس کے ساتھ کھیلنے والے اور سوچنے والے کھلاڑی ایک ہی پلیٹ فارم پر نہیں اور اگر ہیں تو وہ بھی آسٹریلیا کو ہرانے کی مثال بن سکتے ہیںاور ساﺅتھ افریقہ کے آخری کھلاڑی کی سوچ کے ساتھ چل سکتے ہیں، کامیابی اٹل ہے۔
٭٭٭