پاکستان کے مشہور سفر نامہ نگار!!!

0
1999
کامل احمر

کامل احمر

ایک زمانہ تھا، قدیم زمانہ جب گھر سے دوکوس(3.08کلومیٹر)کی دوری پر جانا محال تھا نہ کار تھی نہ بس بیل گاڑی ملنا بھی مشکل تھا۔سڑک برائے نام تھی۔رات میں سفر کرنا خطرے کو دعوت دینا ہوتا تھا کہ ٹھیک ناک میں بیٹھے ہوتے تھے۔لوگ قافلوں کی شکل میں میلوں پیدل چلتے تھے۔رات سے پہلے کسی چشمہ یا ندی کے کنارے پڑاﺅ ڈال لیتے تھے۔پیٹ بھرنے کے لئے بھاڑ کے چنے یا شوگر کے ساتھ گھول کر تکان دور کرتے۔پھر تانگہ آیا، کاریں بسیں اور پانی کے جہاز جو کئی کئی ماہ میں ایک ملک سے دوسرے ملک پہنچاتے تھے۔انگریز آیا تو چاروں طرف ٹرین کی پٹریاں بچھا دیں۔ہندوستان اور پاکستان ایسے پسماندہ ملکوں کو چھوڑ کر یورپ، جاپان اور چائنا نے بے حد تیز رفتار ٹرینیں چلانا شروع کردیں۔امریکہ اس دوڑ میں پیچھے رہا۔تین بڑی موٹر کار کمپنیوں(فورڈ)جی ایم سی اور کرائیسلر)نے ہائے ویز کو فروغ دیا اور کار سوسائٹی نے جنم لیا امریکہ میں یہ حال ہے کہ ہر گھر میں جتنے افراد ہیںاتنی ہی کاریں ہیں، کینیڈا نے بھی اپنے جغرافیائی منظرنامے کو دیکھ کر ہائے وے بنا دیئے۔سفر آسان ہوگیا، مہینوں کا سفر گھنٹوں میں تبدیل ہوگیا۔ہوائی جہاز کی آمد کے بعد۔غور کریں تیرہویں، چودھویں اور پندرویں صدی کو جب ایک ملک کے باشندوں کو دوسرے ملک کا پتہ نہ تھا۔سب سے پہلے اٹلی کے مہم جو نوجوان مارکوپولو نے یہ اعزاز لیا دنیا کے دوسرے ملکوں کی کھوج میں نکل کر وہ سوداگر تھا بنیادی طور پر یہ اسے ورثہ میں ملا تھا۔گھوڑوں، گدھوں اور پانی کے جہازوں پر وہ برما، انڈیا، تبت پہنچا اور چین کے ایک شہر کا گورنر بھی بن گیا۔منگول کے بارے میں تحقیقات کیں اور تفصیل سے پانے سفرنامے میں اس کا تذکرہ کیا۔کچھ لوگوں نے کہا لغو اور جھوٹ ہے یہ بات ہر کسی کے لیے کی جاتی ہے لیکن کسی چیز کا ذکر کرتے ہوئے پڑھنے والے کے لئے دلچسپی رکھی جاتی ہے جو عام ہے سفرناموں میں:مارکوپولو کے دو سو سال بعد اٹلی کے ہی کرسٹوفرکولمبس(نام سے اطالوی نہیں لگتا)نے بہت دور کی کھوج لگانے نکلا رہنمائی کے لئے اس نے اپنے ساتھ مارکوپولو کا سفرنامہ ساتھ رکھا وہ دراصل بحراقیانوس کے ذریعے کم سے کم فاصلے والا راستہ ڈھونڈنے نکلا تھا لیکن پہنچا امریکہ یہ سب سے بڑے کھوجی(EXPLORER)کہلائے تاریخ میں اور امریکہ میں جگہ انکے نام کے مجسمے اور شہر آباد ہیں۔ان کا یادگاری دن منایا جاتا ہے ،جب وہ واپس لوٹا تو صرف18آدمی صحیح سلامت تھے باقی طوفان کی نذر ہوچکے تھے۔یہ1493کی بات ہے وہ سپین ہی پہنچ سکے اور وہاں کی ملکہ ازابیلا اور بادشاہ فرڈتیڈ کو اطلاع کرا دی جنہوں نے اس کے سفر کا انتظام کیا تھا۔انکو خطاب ملا”Admival of OCEAN“امیر سمندر اردو میں کہیںگے۔
اس سے بھی پہلے ایک نوجوان جس کا تعلق مراکش (MOROCCO) سے تھا عمر21سال کی تھی۔چھبل چھبیلا آوارہ گرد لیکن پڑھا لکھا دانشور جیسے عربی اور شریعہ قانون پر عبور تھانے طنجہ(TANGIER)کی گلیوں سے نکلنے کا سوچا اور قافلے کے ساتھ حج کرنے مکہ معظمہ پہنچ گیا۔حج کی سعادت کے بعد اس نے تفریح اور سیاحت کا پروگرام بنایااور آنے والے تیس سالوں میں اس نے مشرق وسطیٰ، عراق، ایران،عدن تنزائیہ کا سفر کرتے پڑاﺅ ڈالتے محبتیں نچھاور کرتے ہوئے ہندوستان پہنچ گیا۔
علاﺅالدین خلجی کا دور تھا سفرنامے میں تخت کے لئے مسلمان بادشاہوں سے لے کر سفر کی صعوبتوں، بحری جہازوں کی تباہی قافلوں کے لٹنے تک کی داستانیں ہیں۔دہلی کے سلطان نے اسے جج کی پوزیشین دے دی اس نے اسلامی شریعہ کے مطابق فیصلے کئے اور کئی شادیاں بھی کیں، کنیزوں کو بھی خدمت کے لئے خریدتا تھا اور جہاں جاتا خوبصورت لڑکی پر فریضتہ ہو جاتا آپ مان سکتے ہیں کہ وہ مضبوط جسم طویل قامد شخصیت کا مالک تھا بالآخر جزائر مالدیپ اسے بے حد پسند آیا وہاں اس نے چار شادیاں کیں(اسلام کا پاس رکھا)بچے پیدا کئے اور جب روانگی کا سوچا تو طلاقیں دے کر واپس مراکش آیااور انتقال ہونے پر طنجہ میں ہی پتلی گلی میں دفن کیا گیا اس کا مقبرہ آج بھی بڑی سادگی کے ساتھ کھڑا ہے۔ہم دیکھنے گئے وہاں ہمارے سوا کوئی اور نہ تھا تصاویر بنائیں فاتحہ پڑھی اور واپس کانسا بلانکا چلے آئے(اسکی تفصیل کبھی موقعہ ملا تو لکھیں گے)۔
سیاحت کے میدان میں ہمارے پاکستانی سیاحوں نے بھی بڑا نام کمایا ہے۔
جن میں مستنصر حسین تارڑ، قمر علی عباسی(مرحوم)رضوان صدیقی اور حسن ظہیر جعفری کی کتابیں(سفرنامے)ایئرپورٹ کے اسٹال پر ملےں گے۔مستنصر حسین تارڑ نے کئی سفرنامے لکھے ہیں اور دلچسپ ہیں معلومات طنزومزاح تاریخ جفرافیہ سب کچھ ہے۔امریکہ کے سورنگ اور پھر نیویارک کے سو رنگ انہیں نیویارک بے حد پسند ہے وہ آتے ہیں اور ہم سے بھی ملاقات ہوتی ہے۔تو دن پنجاب میں انہوں نے دونوں پنجابوں کا موازنہ کیا ہے اس سے بھی زیادہ دلچسپ مہم جو سیاحت،برفیلی بلندیاں، شمشال بے مثال، نیپال نگری کے ٹو کہانی، نانگا پربت ہے لاہور سے چین کا سفر دلچسپ ہے۔
ہمارے دوست فخر علی عباسی جواب اس دنیا میں نہیں لیکن وہ اپنے27سفرنامے چھوڑ کر گئے ہیںکہ پڑھو اور ہنستے رہو اور وہ پہلے پاکستانی سیاح ہیں جن کا نام گنیز بک میں ہے ان سفرناموں پر لکھنے کے لئے ہمیں دو سو صفحے درکار ہیں کہ ہم لکھتے رہیں اور لکھتے رہیں۔
رضوان صدیقی نے دوران ملازمت میں ہی جھیل سیف الملوک لکھ کر تفریح کرنےوالوں کو سیاحت کی طرف مرغوب کیا آستانے سے پیرس روشن اندھیرے(امریکہ)ملائیشیا میں چند روز اور ذکر ایک عمرہ کا معلوماتی اور دلچسپ سفرنامے ہیں جن کے ایک ایک صفحے پر نئے سیاحوں کے لئے معلومات کا بیش بہا خزانہ ہے۔اب ہم ذکر کرینگے حسن ظہر جعفری کا جن کی تازہ کتاب جو انکی دوسری تحریروں اور شاعری کے علاوہ سفرناموں پر شائع ہوئی ہے۔موصوف پرانے صحافی رہ چکے ہیں۔40کی دہائی میں حیدرآباد سے محسن بھوپالی مرحوم کے ساتھ مل کر ادبی جریدہ”زاوئیے“نکال چکے ہیں۔ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں دنیا گھومنے کی سوجھی اور اپنے تجربے مشاہدے شہروں کے متعلق معلومات اور اجنبی لوگوں کی دھوکہ دہی اور ایرلائنز اور دوسری سہولتیں دینے والی جگہوں سے بھی ہوشیار کیا ہے۔جو نئے سیاح کے لئے سودمند ہے۔مشرق وسطیٰ، مشرق بعید امریکہ کناڑا اور ہندوستان کی معلومات دی ہیں۔سب سے اچھوتی بات جو ہر سفرنامہ نگار کے لئے مشہور ہے۔فرضی اور سنی سنائی باتوں سے پرہیز کیا ہے۔سیاحت کے دوران ہونے والی بوکھلاہٹ کے نتیجے میں پریشانی کا ذکر عزیزواقارب کا ذکر یہ سب محبت دو محبت لو کا پیغام ہیں لفاظی سے پاک اور خالص۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here