میں جب بھی اپنا مضمون لکھنے بیٹھتا ہوں تو مقصد کسی کی تعریف یا برائی نہیں ہوتی‘ بس سچ کو سچ اور غلط کو غلط لکھنے کی کوشش رہتی ہے۔ میرا ایمان ہے کہ میں پہلے مسلمان پھر پاکستانی اور پھر میری اپنی پہچان ہے۔ میرے اخبار کی 24 سالہ تاریخ شاہد ہے کہ میری عمر کسی پاکستانی حکمران کے امریکہ آتے‘ ان سے ملتے اور ان کی تقاریب میں جاتے‘ ان کی میزبانی کرتے گزر گئی۔ آج الحمدللہ پاکستان نیوز کے تمام ہمعصر اخبارات اپنے تکبرانہ ذہن کی نذر ہوکر صفحہ ہستی سے مٹ گئے ہیں۔ کچھ دیر کیلئے واشنگٹن ڈی سی گیا۔ میں نے جس جوش و جذبہ کو وہاں دیکھا، اس کو الفاظ کی صورت میں تحریر کرنا مشکل ہے۔ 20 ہزار کی گنجائش والا ایرینا ہال مکمل طور پر پی ٹی آئی کے متوالوں سے بھرا ہوا تھا۔ وائس آف امریکہ‘ نیویارک ٹائمز سمیت بے شمار امریکی اخبارات اور امریکن الیکٹرانک میڈیا حیران ہیں کہ اتنے سارے پاکستانی امریکی ایک چھت تلے جمع ہیں۔ اس عظیم الشان کامیاب جلسہ کے اثرات مستقبل میں پاکستانی امریکیوں پر بہت مثبت پڑیں گے۔ وجہ یہ کہ ہم امریکی پاکستانیوں کی پہچان دہشت گردی‘ ہلڑ بازی یا ایک چھوٹے سے بھی اجتماع میں لڑائی جھگڑا عام سی بات ہے لیکن اتنے منظم طریقہ سے اتنی بڑی تعداد میں پاکستانیوں کا اکٹھا ہونا عمران خان کا عظیم کارنامہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں جلسہ کی کامیابی دراصل پی ٹی آئی کی نہیں بلکہ صرف عمران خان کی کامیابی ہے کیونکہ جلسہ میں ہر پی ٹی آئی کا عہدیدار مختلف بولیاں بول رہا تھا۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ میں اتنی بسیں بھر کر لایا۔ کوئی کہہ رہا تھا میں اتنی کاریں بھر کر لایا لیکن دراصل وہاں جو بھی آیا وہ صرف عمران خان کی شخصیت کی وجہ سے آیا۔ جلسہ میں شکاگو‘ ہیوسٹن‘ ڈیلاس‘ فلوریڈا‘ کیلیفورنیا‘ کینیڈا کے علاوہ بے شمار شہروں سے لوگوں نے جوق در جوق شرکت کی اور نہ صرف خود آئے بلکہ اپنی پوری فیملی کو ساتھ لائے۔ انہیں کوئی بھی پی ٹی آئی والا لیکر نہیں آیا، وہاں اکثر لوگ صرف عمران خان کی کرشماتی شخصیت کی وجہ سے آئے۔ خود امریکیوں کو بھی کچھ اندازہ ہوا کہ امریکی پاکستانیوں کی کتنی بڑی تعداد امریکہ میں اپنے قائد کی ایک جھلک دیکھنے، اس کی بات سننے کیلئے ایک چھت تلے جمع ہوسکتی ہے۔ اس سے خود امریکی پاکستانیوں کی عزت میں اضافہ ہوا ہے۔ ایک دن قبل اتنے بڑے اجتماع کو جمع کر کے عمران خان نے صدر ٹرمپ پر بہترین امپریشن ڈالا کہ اتنی بڑی تعداد میں پاکستانی امریکی اگر آج میرے ساتھ ہیں تو کل میرے کہنے پر تمہیں بھی ووٹ دے سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صدر ٹرمپ نے پریس بریفنگ میں کہا کہ عمران خان پاکستانیوں کا پسندیدہ وزیراعظم ہے اور بڑی گرمجوشی سے عمران ان سے ملے اور وائٹ ہاﺅس کی سیر کرائی۔ اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔ آنے والے دن بتائیں گے کہ یہ دورہ پاکستان و امریکہ کیلئے اہم ترین موڑ ہے کیونکہ پاکستان کو معاشی طور پر امریکہ کی سپورٹ کی اشد ضرورت ہے۔ یاد رہے کہ امریکی سیاستدان صرف ووٹ اور نوٹ کو اہمیت دیتے ہیں۔ عمران خان نے اپنا پیغام یہاں کے اعلیٰ حکام کو پہنچا دیا ہے۔ اس کامیاب جلسہ کے بعد کچھ لوگ مخالفت برائے مخالفت کے تحت فیس بک پر مسلسل غلط اور برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ میری گزارش ہے کہ سب سے اہم بات پاکستان ہے، پاکستان کا استحکام ہے، پاکستان کا دنیا میں مثبت تشخص ہے ،سب کو سیاسی مخالفت بھلا کر آگ بڑھنا ہو گا ۔ باہمی مخالفت دیکھ کر دنیا کیا کہے گی ، ہمیں اپنی عزت خود کرانا ہے، اپنے آپ کو عزت دیں گے تو ہی دنیا سے عزت ملے گی۔ ہمارے لئے تمام پاکستانی حکمران یکساں ہیں۔ وہ جب ملک سے باہر ہوتے ہیں تو ہماری عزت ہوتی ہے جب پاکستان میں ہوں تو جی بھر کر مخالفت کرو‘ عظیم قوموں کی یہی پہچان ہے۔ عمران خان نے بلاشبہ بڑے اچھے انداز میں مختلف امور پر پاکستان کے مو¿قف کو امریکا اور دنیا کے سامنے رکھا ہے۔ پیس انسٹی ٹیوٹ کی تقریب میں ایک موقع پر جب میزبان نے سوال کیا کہ اسامہ بن لادن پاکستان میں پایا گیا اور وہ 3 ہزار امریکیوں کا قاتل تھا تو وزیراعظم نے فوراً بڑا مدلل اور بھرپور جواب دیا کہ ” آپ یہ بھی دیکھیں کے اس جنگ میں ہمارے بھی 70 ہزار لوگ شہید ہو گئے اور یہ بھی یاد رکھنا ہو گا کہ ہم امریکا کی جنگ اپنی سرزمین پر لڑ رہے تھے “۔ پاکستان اور عالم اسلام کے مو¿قف کو انہوں نے متعدد بار مختلف پلیٹ فارمز پر بھرپورطریقے سے پیش کیا ہے۔ ہمیں پاکستان کو دیکھنا چاہئے کہ نہ اپنے باہمی اختلافات کو۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔
٭٭٭