کون سچا کون جھوٹا، اس کا فیصلہ حشر میں ہوگا، جب تاج اچھالے جائیں گے۔ ہر حاکم و محکوم اپنے نامہ اعمال کے ساتھ دربار خداوندی میں کھڑا ہوگا، نیکیوں کے انبار، گناہوں کی پوٹلیاں لیے فیصلے کا منتظر، کراما کاتبین نیکیوں اور بھلائیوں کے رجسٹر اور گناہوںکے بہی کھاتے (یو ایس بی) رب کائنات کے حضور پیش کردیںگے۔ عدالت تو وہیں لگے گی سچ اور جھوٹ کا تعین وہیں ہوگا، جہاں اپنے ہی اعضا گواہی دیں گے اور اپنے کردہ گناہوں کا اعتراف کریں گے۔ حشر کب بپا ہوگا؟ اس کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں، حضرت علامہ اقبالؒ نے کم و بیش ایک صدی قبل کہا تھا۔
باغ بہشت سے مجھے اذن سفر دیا تھا کیوں
کار جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
ان کا انتظار ختم ہوا ہماری رسی دراز ہے، لوگ اپنے طور پر سچ اور جھوٹ کا نتارا کر رہے ہیں۔ بقول ایک سینئر ساتھی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان چھڑی ہوئی اعصاب شکن جنگ نے شدت اختیار کرلی ہے حکومتی ترجمان ہر روز اپوزیشن کیخلاف الزام تراشی کرتے ہیں اور الزام تراشی میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ (ٹیسٹنگ پیریڈ جو ٹھہرا، لگی لپٹی رکھیں گے تو ترجمانی کے اعزاز سے محروم کردیے جائیں گے) دوسری طرف اپوزیشن کے کرتا دھرتا بھی حکومت کا جواب دینے کے لیے تیار بیٹھے رہتے ہیں۔ دونوں جانب کے لشکر جرار گولہ باری کے لیے چوکس، اپنے اپنے مورچوں میں مستعد، وفاقی کابینہ کے فیصلے پس منظر میں چلے جاتے ہیں جبکہ ان کی جگہ سیاسی بیانات، پریس کانفرنسیں اور ٹوئٹس لے لیتے ہیں۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوان قانون سازی کے بجائے ”ڈیبیٹنگ کلب“ بن گئے جہاں پوائنٹ اسکورنگ ہو رہی ہے۔“ دس گیارہ مہینوں سے ملک میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ تاہم اس جنگ سے عوام کے اعصاب چٹخنے لگے ہیں۔ روز بروز سیاسی تلخیاں بڑھ رہی ہیں۔ تان کہاں ٹوٹے گی۔ ایک ساتھی کا کہنا ہے کہ تلخیاں زندگی میں ہوں یا سیاست میں رات کی نیندیں دن کا سکون غارت ہوجاتا ہے۔ عوام کا سکون مہنگائی نے چھین لیا۔ سیاستدان اپنی نا اہلی اور نکمے پن سے راتوں کی نیندیں گنوا بیٹھے۔ اس پر شکوہ کہ ”نیند کیوں رات بھر نہیں آتی۔“ مرزا بھی شاید پوائنٹ اسکورنگ ہی کیا کرتے تھے۔ اسی لیے اختر شماری میں راتیں بسر ہوتی تھیں۔ ترجمان بڑھ رہے ہیں۔ اپوزیشن والے روز بروز گھٹتے جا رہے ہیں۔ جس نے تین چار بیانات دیے نیب کے ریڈار پر آگیا۔ نوٹس، طلبی، گرفتاری، ریمانڈ، ریفرنس، بندہ اسکرین سے غائب، شاہد خاقان عباسی کو تو گرفتاری کا شوق تھا بقول منیر نیازی ”کجھ شہر وے لوک وی ظالم سن کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی۔“ روز کہتے تھے گرفتار کرنا ہے کرلو، حکم کی تعمیل ہوئی 13 روزہ ریمانڈ پر تحویل میں ہیں اور مرزا کا شعر گنگنا رہے ہیں۔
آئے ہے بے کسئی عشق پہ رونا غالب
کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد
سیلاب بلا اسی دن مفتاح اسماعیل کے گھر پہنچ گیا۔ مگر وہ گرفتار بلا ہونے سے بچ گئے۔ ایک ہفتہ کی ضمانت،
ہفتہ پلک جھپکتے گزر جائے گا۔ پھر کیا ہوگا؟ سیلاب بلا ہر کسی کا دروازہ کھٹکھٹائے گا۔ باقی کتنے ہیں دوچار ہی تو رہ گئے ہیں حکومت اور اپوزیشن کی اس اعصاب شکن جنگ میں صرف کشیدگی بڑھی ہے۔ ایک طرف ذہن رسا پر اپوزیشن لیڈروں کے لیے قید، جیل، گرفتاری، پھانسی کی سوچ غالب ہے۔ شیخ رشید جیسے نورتن مسلسل بریفنگ دے رہے ہیں کہ سارے اپوزیشن لیڈروں کو میانوالی جیل میں ڈال دو، لوٹی ہوئی دولت واپس مل جائے گی۔ دولت کی واپسی کے لیے دن گنتے 11 ماہ بیت گئے، 200 ارب نہ مل سکے۔ اب تو سوئس بینکوں سے بھی کچھ ملنے کی امید نہیں مقدمات بن رہے ہیں۔ ان کی تفتیش تحقیقات، فرد جرم، گواہوں کی فہرست، احتساب عدالتوں کے فیصلے اسی دوران ویڈیو اسکینڈل فیصلوں پر تحفظات کا اظہار ویڈیو اسکینڈل کی تحقیقات شروع ہوگئی، جج کے فیصلے کا کیا ہوا؟ ستمبر تک انتظار دو مہینے اندر نہیں رہ سکتے؟ اس عرصہ میں دوسرا فیصلہ آجائے گا۔ اندر بیٹھے سوچا کہ کیا تبدیلی آئی ہے کہ ”جو شخص مدتوں میرے شیدائیوں میں تھا، وہ پیش پیش کل میری رسوائیوں میں تھا“۔ بیشتر ترجمان کل تک اپنے تھے آج پرائے ہوگئے کل کا اپنا آج کا غیر، دبلا پتلا وزیر کس دھڑلے سے برا بھلا کہہ رہا تھا۔ ایسا ہوتا ہے ویسا بھی ہوجائے گا۔ ”جب جسے چاہیے برا کہیے، اس سے آسان کوئی کام نہیں“۔ جو آزمائشوں سے گزر رہے ہیں ان کا مقدر لیکن اس اعصاب شکن جنگ کے نتائج پر تو غور کرلیجیے عوام تبدیلی اور اپنے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈتے ڈھونڈتے بے یقینی اور بد اعتمادی کے گڑھے میں جا گرے ہیں، تاجروں کی ملک گیر ہڑتال کی کال کسی اپوزیشن پارٹی نے نہیں دی تھی۔ خود بخود شٹر ڈاﺅن ہوگئے۔ 70,80 فیصد مارکیٹیں بازار بند ہونے کے منفی اثرات دور رس ہوں گے، کراچی اور لاہور کے تاجروں کو منانے نکلے ،کیا مان گئے؟ مان لیجیے کہ اگر اسی طرح رنجشیں بڑھتی رہیں گی تو کیا مشورے باہم نہ ہوں گے؟ وقت کا انتظار کیا جائے گا وقت گزرتے کیا دیر لگتی ہے۔ اگر ذہنوں میں یہ بات گھر کر گئی کہ اتنے عرصہ بعد بھی ہم اپنے مسائل سے نجات حاصل نہیں کرسکے روز مرہ کے مسائل پابندیوں کے باعث مزید مشکلات کا باعث بن رہے ہیں تو مایوسی پھیلے گی اور رائے عامہ ہموار کرنے والا بڑا طبقہ مایوسی کا حل سوچنے لگے گا۔ یہ سوچ پرانی رنجشوں کے ساتھ مل کر خدانخواستہ کوئی نیا گل نہ کھلا دے، مایوسی، بد اعتمادی اداروں پر اثر انداز ہوگی۔ ہونے لگی ہے۔ سینیٹ جیسے موقر اور معزز ایوان میں تبدیلی کے نعرے بلند ہو رہے ہیں۔ اگر جمہوریت میں بندوں کا گننے کا قانون رائج ہے تو 67 اور 37 کے فرق سے فیصلہ ہوجانا چاہیے تاکہ بندوں کو تولنے اور لوٹا کریسی کی نوبت نہ آئے یہ بھی سوچیئے کہ نوبت کیوں آئی دونوں ایوان قانون سازی کی بجائے پانی پت کا میدان بنے ہوئے ہیں۔ یوں لگتا ہے تیسری جنگ عظیم ہو رہی ہے۔ سیاسی اختلافات کی بجائے ذاتی دشمنیوں کو ہوا دی جا رہی ہے گرم خون ابل رہے ہیں۔ انہیں نارمل کرنے کی بجائے پھونکیں مار کر آنچ تیز کیجا رہی ہے۔ کوئی کسی سے بات کرنے کا روادار نہیں۔ انتہا پسندوں کی انتہا پسندی ملک و قوم کو کہاں لے جائے گی۔ اعصاب شکن جنگ کا قدرتی نتیجہ سامنے آرہا ہے کہ لوگ روزانہ 20 الزامات اور جوابی الزامات سے لا تعلق نظر آنے لگے ہیں۔ مفتاح اسماعیل تو یہ کہہ کر پھنس گئے کہ حکومت کی ایک ہی پالیسی ہے کہ کوئی پالیسی نہیں۔ لیکن یہ تلخ حقیقت ہے کہ اس جنگ سے عوام کی توقعات مایوسی میں بدل رہی ہےں۔ لوگ احتساب کو انتقام قرار دینے لگے ہیں۔ اس سے سیاسی محاذ پر نقصان ہوگا۔ اندر والوں کا مزیدکچھ نہیں بگڑے گا باہر والوں کے لیے پریشانیوں کے گیٹ کھلتے جائیں گے۔ شطرنج کی بساط بچھی ہے ملکی اور غیر ملکی مہرے سر جوڑے بیٹھے ہیں محبتوں کا اظہار خالی از علت نہیں۔ بڑے پیار سے پچکارتے ہوئے نوازشات کے پیکیج میںمطالبات کی کڑوی کسیلی گولیاں بھی پیش کی جا رہی ہیں۔ نیا جال لائے پرانے شکاری، وافر دانا دنکا دستیاب لیکن جال میں پھنسنے کے اندیشہ ہائے دور دراز موجود، لوگ خواب دیکھنے لگے ہیں کہ کسی بڑی تبدیلی کے لیے جوڑ توڑ جاری ہے یہی روز و شب اور حالات آہ و فغاں رہے تو ہونی کو روکنا مشکل ہوجائے گا۔ آگے کیا ہوگا؟ اعصاب شکن جنگ اور ٹکراﺅ کی سیاست کا نتیجہ؟ توڑ پھوڑ، ہنگامہ آرائی، عدم استحکام، اور معاشی بحران کے حل میں پریشانیوں کا سامنا، نوازشیں ہمیشہ نہیں رہیں گی۔ 22 کروڑ عوام بیرونی مطالبات نہیں مانیں گے۔ ہمیں اپنے مسائل کا حل اسلام آباد ہی کی کسی ”بلند چوٹی“ پر بیٹھ کر نکالنا ہوگا بقول اپنے شیخ صاحب آئندہ 90 دن اہم ہیں آئندہ کی فکر کی جائے۔
٭٭٭