مغرور بادشاہ اور درویش کا انجام!!!

0
565

ایک شخص کو اللہ رب العزت نے اپنے فضل و کرم سے بادشاہی عطا کی اور مخلوق کے دل میں اس کی محبت ڈال دی جس سے بادشاہ یہ سمجھا کہ یہ ساری رعایا جو مجھ سے والہانہ پیار کرتی ہے‘ میرے اندر کوئی کمال ہے جس کی وجہ سے لوگ دیوانہ وار مجھے چاہتے ہیں۔ شیطان نے اس موقع پر اپنا پورا حصہ ڈالا کہ یہ خیال نہیں حقیقت ہے کہ تو سب سے اعلیٰ ہے‘ بس گردن کو ذرا ٹیڑھا رکھنا اور اپنے تئیں یہ گمان کرنا کہ میں صاحب کمال ہوں۔ میرے جیسا کوئی نہیں۔ بس ذرا اکڑ کر چلنا۔ اس نے اکڑنے کی خوب کوشش کی بالآخر پان چڑ گئی اور وہ صحیح معنوں میں اکڑ گیا۔ ایک دن اس نے سوچا‘ میں اکیلا اکڑتا رہتا ہوں۔ میری رعایا کو بھی پتہ چلنا چاہئے کہ ہمارے بادشاہ کی کیا شان ہے چنانچہ اس نے مملکت میں سے کئی شاندار گھوڑوں میں ایک گھوڑا پسند کیا اور قیمتی لباسوں میں سے ایک لباس پسند کیا اور لاﺅ لشکر لے کر مخلوق خدا کو ڈرانے کیلئے نکلا۔ اس حالت میں کہ پورا وجود اکڑا ہوا‘ گردن ٹیڑھی‘ ایک نگاہ غلط مجمع پر ڈالتے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا کہ ناگہاں ایک فقیر نے گھوڑے کی باگ پکڑ لی۔ بادشاہ نے اپنی شدید بے عزتی محسوس کی۔ وہ زور سے گرجا‘ باگ چھوڑ دو‘ تمہیں ہمت کیسے ہوئی باگ پکڑنے کی۔ اس نے بڑی نرمی اور متانت سے کہا‘ بادشاہ سلامت! مجھے آپ سے ضروری کام ہے۔ بادشاہ نے کہا یہ کون سا طریقہ ہے‘ بات منوانے کا۔ فقیر نے سنی اَن سنی کرتے ہوئے کہا‘ بادشاہ سلامت! ذرا سر جھکا کر کان میرے آگے کریں۔ مجھے ایک راز کی بات بتانی ہے۔ بادشاہ نے بادل نخواستہ سر جھکایا تو فقیر نے کہا کہ جناب میں مانگنے والا فقیر نہیں‘ میں جان نکالنے والے فقیر ہوں۔ مجھے ملک الموت کہتے ہیں۔ بادشاہ ایک دم پسینے میں نہا گیا۔ بادشاہ نے کہا جناب تھوڑی مہلت دے دو۔ میں جس کام کیلئے نکلا ہوں وہ ختم کرلوں۔ جواب ملا‘ نہیں اجازت نہیں‘ بادشاہ نے منت کرتے ہوئے کہا‘ مجھے گھر تک جانے دو تاکہ وصیت کرسکوں۔ ملک الموت نے کہا‘ نہیں‘ آپ اہل و عیال سے نہیں مل سکتے‘ جب منت سماجت سے کام نہ بن سکا تو بادشاہ نے کہا‘ ساری مملکت لے لو۔ میں سب کچھ چھوڑ دیتا ہوں۔ فرمایا‘ مجھے اجازت نہیں‘ یہ کہہ کر ملک الموت نے روح قبض کرلی۔ بادشاہ کا وجود بمعہ خلعت شاہی زمین پر آن گرا۔ ملک الموت اگلے مشن پر ایک درویش کے پاس پہنچا۔ سلام کیا اور کہا کہ مجھے آپ سے ایک ضروری کام ہے۔ درویش نے کہا‘ کہو کیا کام ہے۔ کہا کہ ملک الموت ہوں۔ آپ کی روح قبض کرنے آیا ہوں۔ مجھے کہا گیا ہے کہ اگر آپ کوئی طریقہ پسند کریں تو میں اس طریقے سے آپ کی روح قبض کروں۔ درویش نے کہا‘ مرحبا خوش آمدید۔ میں تو انتظار میں تھا کہ آپ آﺅ تاکہ میں اپنے محبوب رب سے ملاقات کروں اور اپنے محبوب نبی کی زیارت کروں۔ میں اپنے مالک کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوتا ہوں۔ آپ میری روح قبض کرلیجئے۔ قارئین کرام اگر اللہ کریم کوئی اختیار دے دیں‘ اس کو اپنا کمال نہ سمجھو۔ اس کی عطا سمجھو اور جس کو یہ نقطہ سمجھ آ جائے اس کی رعونت اور اکڑ ختم ہوجائے گی وگرنہ توڑنے کا انتظام موجود ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here