یہ کالم کافی تحقیقات کے بعد لکھا گیا ہے اور ان طلباء کے والدین کے لئے جن کے بچے امریکہ کی شہرہ آفاق، درسگاہوں میں جانے کی خواہش رکھتے ہیں اور اس کے لئے دن رات محنت کرتے ہیں داخلوں کا یہ سیزن گیارہویں جماعت کے بعد شروع ہوجاتا ہے۔ اور طلباء اپنے خوابوں کے حصول کے لئے دن رات ہر زوایہ سے فوکس رہتے ہیں اور اپنی پسند کے سکول میں داخلہ نہ ملنے پر ڈیپریشن کا شکار ہوتے ہیں۔ اس زمرے میں دو باتیں ہیں کہ ان مقبول کالجز اور یونیورسٹیوں میں داخلہ کی شرح3.5فیصد سے8فیصد سے زیادہ نہیں بڑھتی ان درسگاہوں میں35سے50ہزار ہائی سکول گریجویٹ درخواستیں دیتے ہیں اور بیک وقت کئی درسگاہوں میں درخواست ڈال دیتے ہیں یہ ذہن میں رکھتے ہوئے کہ ہر درسگاہ کی انتخابی کمیٹی کا اپنا اپنا معیار ہوتا ہے اور انہیں داخلہ صرف میرٹ پر نہیں دیا جاتا۔ داخلے کا طریقہ کار نہایت اُلجھا اور نہ سمجھنے والا غیر یقینی حد تک ہے اور مندرجہ ذیل چیزوں پر ہوتا ہے۔ نمبر ایک SAT کا سکور دوئم سکول میں پرینٹا مطالب تمام مضامین میں اوسطاً کتنے فیصدی مارکس لئے ہیں۔ اچھے کالجوں میں95فیصد سے اوپر کی ضرورت ہے۔ سوئم جی پی او جو3.5سے اوپر ہونا ضروری ہے۔ چوتھی بات اسکول کے اساتذہ (کم ازکم تین) کے سفارشی لیٹر جس میں طالبعلم کی خوبیوں اور اہم باتوں کو اجاگر کیا ہو۔ پانچویں بات طالبعلم کے خود کے مضمون جو تین یار چار مختلف موضوعات پر لکھے گئے ہوں۔ یہ ضروریات کتنی کٹھن ہیں اس کا اندازہ طالبعلم اور اسکی اساتذہ لگا سکتے ہیں لیکن یہ شرائط ہر طالب کے لئے نہیں صرف ٹاپ اسٹوڈنٹ کے لئے ہے جو غیر معمولی طور پر کسی ریسرچ، کھیل یا دوسری محرک صلاحیتوں جیسے مباحثہ انکی تعداد دو سے تین ہوتی ہے ،اچھے سکولوں میں زیادہ بھی ہوسکتی ہے۔ اسکے بعد انٹرویو کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور آپ سوچ سکتے ہیں کشادشوار کام ہے۔ انٹرویو لینے والے کے لئے کہ انہیں چار سے پانچ ہزار طلباء کا انٹرویو کرنا پڑتا ہے اور ان میں مشکل سے اوسطاً طلباء کا انتخاب کیا جاتا ہے اور مارچ کے آخر اور اپریل کے شروع میں انٹرویو دینے والے طلباء کو اچھی یابری خیر دے دی جاتی ہے، یہ طالبعلم کی قسمت ہے کہ اس سے کس قسم کے سوال کئے جاتے ہیں اور ان کے کسی ایک جواب کو جو ناپسند ہے ذہن میں رکھ کر نااہل کر دیا جاتا ہے۔ غیر معمولی قابلیت کے طلباء کی اول پسند آئی وی لیگ کالجیز میں جن کی تعداد صرف آٹھ ہے ان کے نام یہ ہیں۔ ہارورڈ یونیورسٹی، کولمبیا، برائون، پرنسٹن ،ایل پنسلوانیا، کارنیل، ڈارتھ مائوتھ، ان میں داخلے کی قبولیت کے ریٹ3.19سے 8.52فیصدی ہیں مطلب سب سے مشکل ہارورڈ اور آسان کارنیل ہے۔ اسکے علاوہ جو اس احاطے میں نہیں آتے لیکن مقابلے میں ان کے برابر یا ان سے اوپر ہیں ان میںMITاسٹین فورڈ، جان ہوپکن، کیلی فورنیا ٹیکنالوجی ڈیوک، وینڈر بلٹ، نارتھ ویسٹ، شکاگو نارتھ ویسٹرن اور جارج ٹائون رائس یونیورسٹی اور جارج ٹائون، کارنیگی میلون، نیویارک یونیورسٹی(سب سے زیادہ درخواستیں اور انتخاب) اور ورجینیا یہ کالجز امریکہ کی25بہترین درسگاہوں میں شمار ہوتے ہیں اسکے علاوہ ہر ریاست میں انکے کالجز اور یونیورسٹیاں ہیں جو اسپیشل مضامین میں پورے امریکہ میں جانی پہچانی جاتی ہیں۔ ان میں نیویارک کی اسٹونی بروک کمپیوٹر سائنس کے اعزازی پروگرام کے لئے پچھلے20سال سے ٹاپ پر ہے اور بھی بہت درسگاہیں ہیں جن کا نام لکھنے کی گنجائش نہیں ہے نیویارک میں ہی دو درسگاہیں جن میں ایک میڈیکل کے لئے صوفی ڈیوس ہے ہر سال تین سے چار سو طلباء کا انتخاب کرتی ہے ،اسکا تعلق سٹی یونیورسٹی نیویارک سے ہے اور سیدھے سات سال میںM.Dکی ڈگری مل جاتی ہے اہم بات یہ ہے کہ اس میں85فیصدی داخلہ نچلے طبقے اور کم سہولتوں والی فیملی کے بچوں کو دیا جاتا ہے ،داخلے کی شرائط میں بہت قابل طالبعلم ہونا ضروری نہیں85فیصدی اسکوز اور1300سیٹ اسکوز کو داخلہ مل جاتا ہے اور ٹاپ اسٹوڈینٹ رہ جاتا ہے۔ مطلب میرٹ پر داخلہ نہیں دیا جاتا داخلے سے باہر کرنے کے لئے اچھے سے اچھے طالب علم سے پیچیدہ سوال پوچھے جاتے ہیں جس کی ضرورت نہیں ہوتی مثال کے طور پر ایک طالبعلم سے تحقیق کے دوران معلوم ہوا اس سے سوال کیا گیا تھا اگر تمہیں کوئی ہم جنس پرست مریض کا آپریشن کرنا پڑے تو کیا کرو گے؟ صوفی ڈیوس میں زیادہ سیاہ فام اور ہسپانوی بچوں کو منتخب کیا جاتا ہے اور ہر سال داخلے کی شرائط کو تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ اس کے لئے ہم نے صوفی ڈیوس کے متعلقہ ڈین سے رابطہ کی کوشش کی لیکن معلومات نہ مل سکی طلباء کے داخلے کے انتخاب میں غیر آئی وی لیگMITکا ریکارڈ متنازعہ ہے۔ ہم نے سائنس ڈین کے آفس میں فون کیا پوچھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اچھے سے اچھا طالب علم جو اکاڈیمک ریکارڈ اور دوسری غیر نصابی سرگرمیوں میں ٹاپ طالبعلم کو کیوں خارج کردیا جاتا ہے۔ جواب تھا ہم انٹرویو میں پتہ چلا لیتے ہیں کہ طالبعلم کا رحجان(MOTIVE) کیا ہے۔ مطلب یہ کہ بھلے آپ کتنے ہی قابل ہوں۔ MITاس کی قدر نہیں کریگا۔ لکھتے چلیں کہMITکے علاوہ ہارورڈ اور برائون یونیورسٹی میں اہمیت مالدار فیملی کے بچوں کو دی جاتی ہے۔ ان ساری باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ چرب زبان طالبعلم جو اچھا مباحثوں کا شوقین ہو اور دوسری اکاڈیمک قابلیت میں کم بھی ہو تو داخلہ مل سکتا ہے۔ اس کی مثال پچھلے سال۔ ایک طالبعلم جس کا تعلق فلاریڈا سے تھا اور جس کے والدین نائیجیریا سے تعلق رکھتے ہیں ایشلے ایڈبریکا ہے نے تمام آئی وی لیگ کا لجیز کے علاوہ سات دیگر درسگاہوں میں درخواست بھیجی۔ یہ حیران کن اور ریکارڈ توڑ بات ہے کہ تمام کے تمام15کالجوں سے اُسے قبولیت کا پیغام ملا۔ اور اس نے ہارورڈ یونیورسٹی کا چنائو کیا اسکی خاص بات یا خوبی یہ تھی کہ وہ بہترین مباحثہ بازDEBATERتھی اور دوسری شرائط میں دوسروں کے مقابلے میں کم تر تھی اسے ہم فنی بات کے طور پر لینگے۔ اسکی ایک مثال اور ہے اور حیرت ناک بھی کیٹلین ینگر(KAIT LYW YOVNGER) ایک مڈل کلاس کالن کائونٹی کی طالبعلم جس کا SATکا اسکورہ155تھا اور تقریباً4جی پی اے تھا۔ اور دوسری صلاحیتوں سے بھرپور تھی اور آئی وی لیگ میں داخلے کے لئے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا تھا۔ نے آٹھوں آلی وی لیگ کالجوں میں درخواست دی اور افسوس کہ ہر جگہ سے اسے باہر کر دیا گیا۔ صرف رائس یونیورسٹی نے اسے ویٹنگ لسٹ میں رکھا۔ اس مایوس کن حالت میں بالآخر اس نے خود کو ڈیپریشن سے نکالا اور آسٹن کی یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا۔ اس کا اگلا قدم ایری زونا یونیورسٹی میں بزنس کے شعبہ میں اسکالر شپ کے ساتھ داخلہ ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اچھے طلباء کو قطعی طور پر آئی وی کالجوں کے پیچھے بھاگنے کی ضرورت نہیں جہاں کی اوسط فیس65ہزار ڈالر سال کی ہے اپنے اطراف میں ریاستی اور چھوٹی جگہوں کے کالجوں کی چھان بین کریں اور اپنی پسند کے پیشہ میں ڈگری لیں۔ جیسا کہ پاکستانی امریکن طالبعلم نے ڈرامہ فلم اور آرٹ میں جو اسکا پسندیدہ شوق اور جنون تھا۔ میں نیویارک یونیورسٹی کے فلم اور ٹی وی میں فل اسکالر شپ جیتی ہے یعنی مکمل چار سال انہیں اسکالر شپ مل گی خیال رہے کیلی فورنیا کے بعد امریکہ میں نیویارک یونیورسٹی کا نام فلم اور ٹی وی کی تعلیم میں سرفہرست ہے صرف اٹلی میں امریکن یونیورسٹی رومAURکا نمبر ٹاپ پر ہے۔ یا پھرسرفہرست امریکن فلم انسٹیٹیوٹ اورUCLAہیں۔ اس ہونہار باصلاحیت طالبعلم کا نام بتاتے چلیں عامر سلیم ہے نیویارک یونیورسٹی کے جو چار مشہور ہدایت کار نکلے ہیں ان میں ۔اسپاٹک لی، مارٹن اسکارسیسی، وڈی ایلن اور اینج لی ہیں یہ چاروں اکاڈمی ایوارڈ ونر ہیں کسی بھی پاکستانی کے لئے یہ خاص اور اہم لائن ہے جس میں مستقبل میں ڈیمانڈ بڑھتی رہے۔
ہمارے پاکستانی والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ انکے بچے ڈاکٹر بنیں بات درست ہے کہ دنیا بھر میں ہر معاشرے میں ڈاکٹر قابل احترام اور عقیدت ہوتا ہے دوسرے پیشوں کے مقابلے میں لیکن اگر آپ امریکن اسکول میں کامیابی حاصل نہ کرسکیں تو باہر کے ملکوں سے ڈگری لے کر آئیں امتحان پاس کریں اور ہسپتال کی میچنگ میں نام ڈال لین ہمارے کئی ڈاکٹرز نے ایسا کیا ہے اسی پیشے سے وابستہ دو اور پیشے ہیں فارمیسی اور نرسنگ اور ان دونوں سے ڈاکٹر مدد لیتا ہے۔ غلط دوا لکھنے پر اسے فارماسٹ روکتا ہے اور نرس مریض کی حالت سے ڈاکٹر کو آگاہ کرتی دونوں پیشوں میں آپ دو سو ہزار سے زیادہ بنا سکتے ہیں آنے والے وقت میں ناقص غذائوں سے مریضوں کی تعداد بڑھے گی اور ان تینوں پیشوں میں چاندی ہی چاندی ہے۔ دوسرا پیشہ انجینئرنگ ہے لیکن بہت کم طلباء کا رحجان اس ہوتا ہے اور اب جو سب سے مانگ فیلڈ ہے وہ کمپیوٹر سائنس ہے اور اس میںA-1مصنوعی ذہانت کا شعبہ ہے حد اہم ہو رہا ہے لیکن یہ تمام اپنے شوق اور ترقی پر منحصر ہے۔ ان ساری باتوں کے لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ آنی وی لیگ میں داخلے کی دوڑ میں آر یا پار کا گیم کھیلنے کی ضرورت نہیں امریکہ میں ہزاروں کالجیز اور یونیورسٹیں ہیں جوآپ کو خوش آمدید کہنا چاہتی ہیں۔
٭٭٭٭٭