طاہر حنفی
اے رب ذوالجلال ہم توبہ استغفار کرتے ہیں، ہمارے گناہ معاف کر دے اور ہمیں اس آفت سے نجات دلا، جب میں اسلام آباد کے مضافاتی دیہی علاقے میں بیٹھا یہ سطور لکھ رہا ہوں ،رات کے دس بجے ہیں اور میرے علاقے کی مساجد کے علاوہ لوگ گھروں کی چھتوں پر بارش کے باوجود اذانیں دے رہے ہیں، بڑے بوڑھے کہتے ہیں کہ ان اذانوں سے معافی اور توبہ کا راستہ کُھلتا ہے۔ آج رسمی لاک ڈاﺅن (کہیں جزوی اور کہیں مکمل) عوام سمجھ دار ہیں ،بیرون ملک میں کرونا وائرس کی ہلاکت خیزیاں ان کے ہاتھوں میں بجتے ہوئے ٹیلیفونوں کی ہر گھنٹی پر ایک نئی کہانی سنا رہی ہیں، مقابلہ کرنے کی ہمت اور سکت پاکستانی قوم میں بہت ہے۔ اگرچہ مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارا میڈیا ہمارے حکمران اموات کے مقابلے پر صحت یاب ہونےوالوں کی معقول تعداد سے نہ جانے کیوں عوام کو مطمئن نہیں کر پا رہے۔ مثال کے طور پر 31 مارچ کی رات دس بجے تک پاکستان میں 1914 کرونا کیس رپورٹ ہوئے جبکہ صحت یاب ہونےوالے 58 اور مرنے والے 26 تھے، پاکستانی عوام اس وباءکا مقابلہ کرنے کیلئے ذہنی اور جسمانی طور پر تیار ہیں اور اس کا اندازہ اس خوش آئند بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی واضح اکثریت نے خود کو گھروں تک محدود کر لیا ہے اور انتہائی اشد ضرورت کے تحت ہی لوگ حفاظتی ماسک اور دستانے پہن کر گھروں سے باہر نکلتے ہیں۔ جہاں عوام کے احساس ذمہ داری کی داد دینا ضروری تھا وہاں بد قسمتی سے قومی زندگی کے اس فیصلہ کن مرحلے پر ہمارے عوامی نمائندوں نے بلا تفریق پارٹی اور منشور بہت مایوس کیا۔ اپنے انتخاب کیلئے مہم پر کروڑوں روپے خرچ کرنےوالے ہمارے منتخب نمائندے کیا اس قدر غریب ہو گئے تھے کہ وہ اپنے اپنے حلقہ¿ انتخاب میں سیاسی وابستگیوں سے قطع نظر چند ماسک اور دستانے بمعہ سینیٹائزر نہیں بانٹ سکتے تھے، ہمیں تو ہر جگہ سے اس کا جواب نفی میں ہی ملا۔ میرے پیارے پاکستانی عوام دعائیں کر رہے ہیں کہ جواب نفی میں ہو کرونا کیلئے ہونےوالے ٹیسٹوں کا لیکن اس سے پہلے انہیں ان نام نہاد عوامی نمائندوں کو اپنی ذاتی جیب سے کی جانےوالی کوشش نفی میں تبدیل ہو گئی حیرت انگیز طور پر پورا مارچ ہمارے عوام اپنے گھروں کی چھتوں پر چڑھ کر دور دور تک اپنے منتخب نمائندوں کو ڈھونڈتے ہوئے گزارا ہے اور دوسری طرف وہ منتخب نمائندے حکومتی امداد کے بل بوتے پر اپنی سیاسی دکانداری چمکانے کیلئے ہمہ و قت تیار پائے گئے لیکن ہم سب لوگوں کو ان نمائندوں کو شاباش دینی چاہیے کیونکہ یہ عظیم لوگ قانون بنانے والے بلا خوف قانون کا احترام بھی کرنے لگے اور انتظامیہ کی جانب سے لگائی گئی دفعہ 144 کا صدق دل سے احترام کرتے ہوئے گھر سے باہر نہ نکلنے کے مضبوط ارادے پر قائم رہے، کرونا وائرس کےخلاف جنگ کے اصل ہیرو تو سرکاری حکم ماننے والے ایم این اے، ایم پی اے ہیں ،پوری قوم کو چاہئے کہ وہ اپنا پیٹ کاٹ کران لوگوں کے گھروں تک مفت راشن بھی پہنچائیں۔موجودہ حکومت تو حسب معمول پلاننگ میں مصروف عمل ہے اور اس کے نتائج جلد سامنے آئیں گے کہ عوام کو کتنا ریلیف ملے گا لیکن سلام پاکستانی قوم کے ان نوجوانوں اور درد دل رکھنے والے مخیر خواتین و حضرات کو جنہوں نے سرکار کی طرف دیکھنے کی بجائے از خود لوگوں کو کچی بستیوں اور دیہاڑی دار مزدوروں کے گھروں تک راشن پہنچانے کی ذمہ داری لی اور اب تک کئی تنظیموں کی طرف سے ان افراد کو ان کے گھروں پر راشن کی مسلسل فراہمی کا کام جاری ہے۔ ان لوگوں کے اس عظیم اور بے لوث جذبوں کو دیکھ کر ہمارا ایمان اور مضبوط ہوتا ہے کہ ہم اس وباءکو اپنے جذبہ¿ ایمانی سے شکست دے سکتے ہیں ،رہی حکومت وہ اپنا کام کرے اور تمام کابینہ اور منتخب نمائندوں کو تنخواہ ابتدائی طور پر ایک ماہ) کاٹنے کا خود اعلان کر دے اور کرونا فنڈ کے تمام حسابات پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیش کرنے کا اعلان کر کے پارلیمنٹ کی اہمیت کو تسلیم کرے۔
٭٭٭