مجبوری سے محتاجی تک

0
375
طاہر حنفی
طاہر حنفی

طاہر حنفی
جو کسی کیلئے گڑھا کھودتا ہے وہ خود اس میں گِرتا ہے، یہ کہاوت بچپن سے پڑھتے سنتے آئے لیکن کبھی کبھی عوام کی اپنی اپنی تشریح کا اپنا ہی رخ ہوتا ہے، ہسپتال سے واپس آتے ہوئے ایکسپریس ہائی وے پر ملک کی ایک جدید بستی کو ملانے والی انٹر سٹی روڈ پر ٹرکوں کے د رمیان میں سے جان بچاتی چھوٹی گاڑی کے ڈرائیور کو بہ امر مجبوری اسے گڑھے میں اُتر کر 440 وولٹ کا جھٹکا خود اور ایک سینئر شہری کو مفت میں ملا ہو تو یقین جانئے نوجوان ڈرائیور کی سیاسی بلوغت کا قائل ہونا پڑا۔ آپ بھی سنئے اور سردھنیئے، سر جی معذرت مجبوری ہے اور اوپر والے کی ڈھیروں عنایات میں سے ایک یہ گڑھا ہے ،انشاءاللہ جب بھی مجھے جمہوری حق کے استعمال کا موقع ملا تو اپنے موجودہ نمائندے اور اس کے ہم نواڈوں کو اسی گڑھے میں DITCH کرونگا کیونکہ پھر ہماری باری ہوگی، یہ خیالات ایک بے روزگار انجینئر کے ہیں جو اپنے بڑوں کی اچھے وقتوں کی کمائی سے لی گئی کار کو ماڈرن ٹرانسپورٹ سسٹم میں ڈال کر مہنگائی کی شدت کم کرنے کیلئے دن میں کم از کم دس گھنٹے گاڑی چلاتا ہے۔ طرح طرح کے لوگوں سے اس کا واسطہ پڑتا ہے اور نت نئی کہانیاں سننے کو ملتی ہیں۔ مجھے اس نوجوان کی بات سن کر اس لئے حیرت نہیں ہوئی کہ جس محفل میں جس مجلس میں بیٹھے تو لوگوں کی عمومی گفتگو سے یہی تاثر ملتا ہے کہ ”غلطی ہو گئی آئندہ احتیاط“۔ ہماری قومی بدقسمتی ایک یہ بھی ہے کہ ہمیں ہمارے اکابرین ملت نے مشکل دنوں کیلئے تیار نہیں کیا اور ہر روز گزشتہ کئی برسوں سے سب اچھا ہے، کا چُورن بیچا جاتا ہے۔ مستقبل کی منصوبہ بندی کا کوئی روڈ میپ نہیں لیکن جان بوجھ کر قوم کو مہنگائی کی دلدل میں گرا کر اپنی قسمتیں اور جیبیں سنوارنے کی مشترکہ تیاری کی جا رہی ہے۔
حکمران ٹولے نے تو یہ طے کر لیا ہے کہ جہاں دراصل ان کی عملداری ہے وہی سات کلو میٹر اسلام آباد ہے باقی جائیں بھاڑ میں۔ اس ہفتے میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں اسلام آباد کیلئے ترقیاتی منصوبوں کا جائزہ لیتے ہوئے اسلام آباد اور اس کے مضافات سے منتخب تینوں میں سے کسی کو وہ لاکھوں بد قسمت عوام یاد نہیں رہے جو ان جیسے لوگوں کو ووٹ دینے کی قیمت اس اضطراب کی صورت میں ادا کرتے ہیں جو انہیں روات کے ٹی چوک سے کورال تک آتے جاتے ہوئے گھنٹوں کی اذیت ملتی ہے۔ یہ وہ کیڑے مکوڑے ہیں جو کئی کئی گھنٹے، ٹی چوک سے کورال کے دونوں اطراف آنے جانے کیلئے اس ٹوٹی ہوئی سڑک پر اپنی قیمتی زندگی کے لمحات ضائع کر رہے ہوتے ہیں ۔دوسری طرف ٹریفک پولیس صرف سوشل میڈیا پر اپنی نام نہاد کامیابی کے گُن گاتے ہوئے نہیں تھکتی، کاش صحیح معنوں میں کوئی بڑا ان مضافاتی بستیوں کا مکین ہو تو پھر ہی ان کے باسیوں کی قسمت یاد آور کرےگی، بےروزگار انجینئر کی طرح کئی ایسے نوجوان ہیں جو ان علاقوں میں رہتے ہیں اور اپنی زندگی میں اذیت بھرے لمحے جمع کرتے ہوئے اس نہج پر آگئے ہیں کہ کسی روز ایکسپریس وے کے گڑھا زون میں یہ پُر امن احتجاج کرتے نظر آئیں گے اور ہمارے نام نہاد نمائندوں کے کان پر پھر بھی اس لئے جُوں نہیں رینگے گی کہ گڑھا پروگرام تو ابھی بہت دور ہے، بس وقت گزار لو اگر بہت زیادہ عوامی پریشر پڑ جائے تو اپنی منظور نظر بیورو کریسی پر دکھاوے کی چڑھائی کر کے سرخ رو ہو جایا جائے۔
منتخب نمائندوں کا ذکر چلا ہے تو مجھے پارلیمنٹ کی سب سے طاقتور کمیٹی پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کے چیئرمین کی خود اختیاری، بے بسی، یاد آگئی آپ کیوں حیران ہو رہے ہیں؟ ارے بھئی وہ اگر بے بس نہ ہوتے تو پی آئی اے کے معاملات پر کیا رپورٹ طلب نہیں کر سکتے تھے لیکن بھلا ہو تو پارلیمنٹ سے چند قدم کے فاصلے پر عدالت عظمیٰ کا جنھوں نے ان منتخب نمائندوں کے حصے کا کام کر دیا لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا پی اے سی کے متفقہ چیئرمین کسی سیاسی ڈیل یا ڈھیل کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں یا صرف فرمائش شدہ لوزبال پر کھیلنے کے عادی ہیں۔ ان کا علم یقیناً پی اے سی کے بیشتر ارکان سے اس لئے بھی زیادہ ہے وہ گزشتہ اداروں کے فیصلوں پر عملدرآمد کیلئے قائم کردہ پی اے سی سب کمیٹی کے کنوینئر رہے ہیںاور مملکت کے مالی معاملات سے کما حقہ با خبر ہونے کے دعویدار بھی ہیں۔ ان کو اپنی پارلیمانی حیثیت کو پارٹی کے کارکن سے بڑھ کر منوانا ہوگا ورنہ پی اے سی کہیں اپنی افادیت نہ کھو بیٹھے، پارلیمانی نگرانی اور احتساب کی علامت پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی قوم کے ایک ایک پیسے کے جائز استعمال پر نظر رکھتے ہوئے اس کی منظوری دیتی ہے۔ کمیٹی کی قائم کردہ مختلف سب کمیٹیوں کو صرف اشتہار بازی کی نذر کرنا بھی مناسب نہیں، ارکان کو چاہئے کہ وہ زیادہ مو¿ثر انداز میں کمیٹی کے کام کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔ موثر انداز سے یاد آیا کہ آج کل ارکان پارلیمنٹ کے مشاہروں میں اضافے کی تجاویز کا بہت چرچا ہے۔ کیا وقت آگیا ہے ،اس پارلیمانی قوم پر کہ وہ اپنے شاہراہوں میں اضافے کیلئے نجی بل کی محتاجی پر آگئے ہیں حالانکہ یہ وہ عظیم لوگ ہیں جو کروڑوں روپے اپنی انتخابی مہمات میں خرچ کر کے ان منتخب ایوانوں تک پہنچے ہیں ،کیا یہ المیہ نہیں کہ ایک ہاتھ سے کروڑوں خرچ کرنے والے اپنی تنخواہوں کیلئے آہ و بکاءکر رہے ہیں، ہونا تو یہ چاہئے کہ رکنیت پر ٹوکن، معاوضہ ان تمام کو ملنا چاہئے لیکن!آہ کواثر کیلئے اک عمر چاہئے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here