طاہر حنفی
آپ جب یہ سطور پڑھ رہے ہونگے اس وقت تک 2020ءکو وارد ہوئے 46 گھنٹے گزر چکے ہونگے زندگی کے سفر کا پہیہ کس سمت کو رواں ہوگا یہ فیصلہ صرف وقت نے کرنا ہے، آئیے صدق دل سے زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے یہ سوچیں کہ 2020ءہمارے دامن میں کیا ڈال سکتا ہے۔ ماضی سے محبت ایک اچھی بات ہے لیکن ماضی سے بغل گیر ہو کر مستقبل کے بارے میں زبانی خرچ میں بحیثیت ایک قوم کوئی پیشرفت نہیں ہو سکتی ہے ۔ اس کا ادرا ک شاید ہمارے حکمرانوں سے لے کر دن میں خواب دیکھنے والی نوجوان نسل کو نہیں ہے جو سنہری لفظوں کے جال میں پھنس کر اپنی توانائیاں ٹچ بٹن کے ذریعے ضائع کر رہے ہیں۔ مانا کہ ہم ٹیکنالوجی کے دور میں رہ رہے ہیں اور اس نے ہماری زندگیوں میں آسانیاں پیدا کی ہیں لیکن انہوں نے ہم سے ہماری شعوری کوششیں چھین لی ہیں۔
کیا آپ نے سنجیدگی سے اس بات پر غور کیا ہے کہ ہم نے اپنی زندگی اپنی جاب، اپنی توانائی کو 35 سیکنڈ کے ہاتھوں یرغمال بنا دیا ہے، ہمارا سب کچھ ٹیلی ویژن کی سکرین پر نمودار ہونے والے ٹکر کا مرہون منت ہے، بغیر سیاق و سبا ق کے ہم اس بھیڑ چال کا ایندھن بن جاتے ہیں ، درست اور غلط کی تمیز کیے بغیر ایک دوسرے کےخلاف برقی جھڑپ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ یہی ہماری زندگی بن گئی ہے کہ ہم کسی بھی قسم کے سیاسی، سماجی اور معاشی پراپیگنڈے سے متاثر ہو کر انجانے میں کسی کے ایجنڈے کو پایہ¿ تکمیل پہنچانے میں کرائے کے وہ ٹٹو بن جاتے ہیں جو صرف اپنے وقت کو ضائع کرنے کیلئے خود کو رضا کارانہ طور پر پیش کررہے ہوتے ہیں ، یہ ایک سنگین معاملہ ہے جس پر زندگی کے تمام طبقہ ہائے فکر کو سنجیدگی سے 2020ءمیں سوچنا ہوگا ، اس سلسلے میں بہتر تو یہی ہے کہ ہم اپنی آبادی کے بڑے حصے کو کسی تعمیری سرگرمی میں مشغول کر دیں، ٹیکنالوجی کے نام پر قائم مافیاز نے پیکیجز کے نام پر نئی نسل کو جن قباحتوں سے روشناس کرا دیا ہے اس سے معاشرے میں جا بجا پھیلتی ہوئی بے راہ روی کو مزید ہوا دی ہے۔ 2020ءکیلئے 22 کروڑ کی آبادی کو یہ سوچنا ہوگا کہ صوبائیت ، علاقائیت اور زبان کے نام پر وہ اپنے سیاسی مہاراجوں کو اپنا استحصال نہیں کرنے دینگے اور سیاسی کارکنوں کو یہ سوچنا ہوگا کہ وہ اپنے کردار سے معاشرتی گھٹن اور عدم برداشت کے رویوں کا قلع قمع کرینگے۔ کیا ہمارے حکمران 2020ءمیں بھی حسب معمول باتوں سے عوام کو بےوقوف بناتے رہیں گے یا عملی طور پر لوگوں کو زندہ رہنے کیلئے ایسا ماحول فراہم کرینگے جہاں غریب میں جینے کی اُمنگ زندہ رہے۔ مہنگائی کے طوفان نے جس طرح غریب عوام سے لے کر متوسط طبقے کی نیندیں حرام کی ہیں، اشرافیہ اس سے لا تعلق ہے کیونکہ عام کے ٹیکسوں اور بیرونی قرضوں سے ان کا دال دلیہ چل رہا ہے انہیں اس سے کیا غرض کہ جن لوگوں نے ووٹ دے کر انہیں اقتدار میں پہنچایا ہے وہ کس حال میں ہیں۔ سونے پر سہاگہ ملاحظہ فرمائیں کہ عوام کو کچلنے کیلئے معاشی بہتری کے نام پر آئی ایم ایف کے معاہدوں میں حکومت کےساتھ اپوزیشن بھی شریک ہونے جا رہی ہے کیونکہ معاشی بہتری کے ڈرامے میں عوام پر ٹیکسوں کی نئی بھرمار کو پارلیمنٹ کے ذریعے سے قانون سازی کر کے عملی طور پر خط غربت تک پہنچا دیا جائے گا ،اسی وجہ سے آئی ایم ایف نے حکومت کو جون 2020ءتک کی ڈیڈ لائن دے دی ہے۔
کیا 2020ءمیں ریاست کے دو اہم ستونوں عدلیہ اور انتظامیہ اپنے تعلقات بہتر طور پر استوار کر پائینگے کم از کم جاتا ہوا 2019ءتو ایسے کسی اعشاریے کی طرف نشان دہی نہیں کر رہا، آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر سپریم کورٹ میں دائر کردہ نظر ثانی درخواست کا متن خود اس امر کی عکاسی کر رہا ہے کہ شاید حکومت میں شامل کچھ خیرخواہ، جلد سے جلد حکومت کے جانے کے خواہش مند ہیں۔ قصہ سب زبان کا ہے بعض اوقات درست بات کہنے کیلئے الفاظ کی غیر مناسب ترتیب آپ کا مدعا بیان کرنے کی بجائے تفادات کا شعار لگتی ہے۔
٭٭٭ا