میثاقِ حُرمت لفظ!!!

0
80
طاہر حنفی
طاہر حنفی

طاہر حنفی
یخ بستہ فضاﺅں میں سیاسی محاذ پر گرما گرمی نے بڑے برے فارم ہاﺅسز میں کافی کی چُسکیاں لیتے غیر سیاسی نجومیوں کےلئے سوداگری کے نئے سامان پیدا کر ددیئے ہیں جسے دیکھو کوئی نہ کوئی نیا چُورن بیچنے کی کوشش کر رہا ہے اور ٹیلی ویژن کی سکرینوں پر بریکنگ کے نام پر مختلف فلوروں پر پُرانے ڈرامے کی نئی قسط چلانے کا ”معرکہ“ انجام دیا جا رہا ہے۔
نئی صف بندی کا اہتمام کرنے کیلئے اگر کہیں وعدے وعید کے کاغذوں پر جمی گرد اُتاری جا رہی ہے تو دوسری طرف بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیش نظر آنے والے ”مقامی“ انتخابات سمیت کسی بھی انتخاب کیلئے ”رقم“ کی فراہمی کے ذمہ داران اور مستفید ہونے والوں کی فہرست پر ”زمینی حقائق کی روشنی میں نظر ثانی کی جا رہی ہے، ظاہر ہے جب آمدن اور خرچ کا حساب ایک ٹچ بٹن کی زد میں ہو تو احتیاط لازم ٹھہرتی ہے اسی لئے جواز ڈھونڈ رہا تھا نئی محبت کا کے مصداق سیاسی اٹھکھیلیوں کا موسم نئی انگڑائیاں لے رہا ہے۔
بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے سیاسی اور غیر سیاسی تصور نے جگہ جگہ ڈھابے کھول دیئے ہیں اور یہ سلسلہ اس حد تک دراز ہو گیا ہے کہ !
جب بھی پہنچے تیری سرکار میں پہنچے، سرکار کی سرکاریت کا عالم تو آپ نے دیکھ اور سن لیا ہوگا جہاں آسمان چھوتی مہنگائی نے گریڈ 17 سے لے کر گریڈ 21 کے ”غریب اور مستحق“ ملازمین کو بینظیر انکم سپورت پروگرام کے استفادہ کنندگان کی فہرست میں لا کھڑا کیا، قومی خزانے پر پارلیمانی نگرانی کے سب سے با اثر ادارے پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کے چیئرمین کی نظر سے شاید یہ خبر نہیں گزری ہے کہ وہ تو ابھی تک لندن میں اٹھائے گئے حلف کے اثرات سے باہر نہیں نکل پائے افسوس کا مقام ہے کہ اتنی بڑی ڈاکہ زنی پر پی اے سی کی طرف سے نوٹس نہ لینا کیا اس حقیقت کی نشاندہی کر رہا ہے کہ بیورو کریسی سیاست دانوں کی آشیر باد سے خلاف ضابطہ کام کرتی ہے اور مشکل وقت میں سیاستدان انہیں تحفظ فراہم کر دینگے۔ پی اے سی کے چیئرمین رانا تنویر حسین کو اپنے کسی عظیم قائد، کے بیانیے کے ”دفاع“ سے جب فرصت ملے تو اس معاملے کو دیکھ لیں ویسے بھی جتنا طویل پارلیمانی تجربہ ان کے پاس ہے اس حساب سے وہ اگر چاہیں تو جماعتی سیاست سے بالا تر ہو کر وہ اپنے آپ کو پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی گروہوں کیلئے قابل قبول بنا سکتے ہیں، پی اے سی کے چیئرمین کو ٹاک شوز میں اپنی پارلیمانی قوت (پی اے سی) کے فیصلوں اور درپیش چیلنجوں پر بات کرنی چاہیے کیونکہ ان کی جماعت کے پاس بیانیے، پر بات کرنے والوں کا ایک ہجوم موجود ہے، جب تک ہماری ملکی سیاست میں ”لفظ“ کو عزت نہیں ملے گی اس وقت تک ہم بحیثیت قوم اپنا مثبت کردار ادا نہیں کر پائیں گے، کیا ہمارے سیاستدان مل جل کر میثاق حُرمت لفظ“ کرنے کو تیار ہیں، آپ کیوں حیرت زدہ ہیں؟ کیا ہمارے ہر مکتبہ فکر کے سیاستدانوں نے اپنے کہے لفظ کو عزت دی ہے اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کیلئے نہ تو آکسفورڈ سے ڈاکٹر میٹ کی ڈگری کی ضرورت ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ کی رُکنیت کی، بس ضرورت ہے تو سیاسی کارکنوں کے ایک پُرعزم اور متحرک ٹولے کی جو نہ صرف پارٹی کے اندر جمہوری رویوں کی پاسداری یقینی بنائے بلکہ پارٹی کے پلیٹ فارم سے کئے گئے لچھے دار وعدوں پر بھی نظر رکھے۔ ہمارے ملک کے بائیس کروڑ عوام کو پارلیمنٹ کی بالادستی کے نام پر برسوں ”بھاشن“ دینے والے عظیم ”قائد“ تو یاد ہی ہونگے جنہوں نے ملک کی سب سے بڑی عدالت میں چیف لاءافسر کے ذریعے سے پارلیمنٹ میں کہے گئے الفاظ سے مُکر کر اپنی ”جان“ خلاصی کر لی اور ہم جیسے پارلیمانی امور کے اطفال مکتب کو یہ سبق دیا کہ اپنی ذات کی بالادستی پارلیمنٹ کی بالادستی پر فوقیت رکھتی ہے، تمام عمر پارلیمنٹ کی خود مختاری کا راگ الاپنے والے بالآخر ایک روز اس بات پر مجبور ہوئے کہ پارلیمنٹ تک پہنچنے کے جمہوری رستے ”ووٹ“ کو عزت دینے کی بات کریں یہ الگ بات کہ 2020ءمیں اس کی تشریح کے انداز بدل گئے ہیں اور سیاست کی لغت میں نئی توجیہات کو پذیرائی مل رہی ہے۔
نئے موسموں کے انتظار میں نئے سیاسی پنچھی اپنی اپنی اوقات کے مطابق ”دانا چُگنے“ کی سنجیدہ کوششوں میں مصروف ہیں اور سونے پر سہاگہ یہ کہ کارکنوں کو بھی سنیاسی منجن بیچا جا رہا ہے، جُوں جُوں پارلیمنٹ میں موجود عددی اعتبار سے کم مگر اپنے تئیں ”فیصلہ کن“ اہمیت کے حامل گروہ سیاسی میدان میں لفظوں سے نئے تاج محل تعمیر کرنے کی خواہش کرتے ہیں تو پیالی میں طوفان اُٹھنے لگتا ہے اور مکالمے کا سارا زور ”لفظ حرمت“ پر لگایا جاتا ہے۔ ٹیلی ویژن سکرینوں پر ہمارے اپنے الفاظ کے ساﺅنڈ بائٹ یخ بستہ راتوں سیاستدانوں کیلئے وجہ پریشانی نہیں ہوتے کہ کئی نسلوں سے ان کے آباﺅ اجداد بھی ان کے بل بوتے پر حکمرانی کرتے آئے ہیں اور جُوں جُوں جمہوری حق کے استعمال کا وقت نزدیک آتا ہے انہی الفاظ کو نئے رنگ دے کر سیاست چمکائی جاتی ہے کاش کوئی تو اپنے کہے کی لاج رکھ لے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here