پیر مکرم الحق،انڈیانا
mukarampeer@gmail.com
2016ءکے انتخابات سے قبل راقم نے اس کالم اور اس اخبار کے ذریعے کئی بار تارکین وطن پاکستانیوں سے درخواست کی کہ خدا کے واسطے امریکی سیاست میں دلچسپی لیں تاکہ آپ لوگوں کی آواز سنی جائے لیکن صد افسوس کسی نے نہ سنی دراصل کیسے سنتے ہمیں آپس میں لڑنے سے فرصت ہو تو آنے والی نسلوں کے مستقبل کو سنوارنے کی کوئی کوشش کریں۔ ہم ابھی تک پاکستانی سیاست کے محور سے نکل نہیں پائے۔ پاکستانی تارکین وطن یا پاکستانی، امریکیوں کا المیہ یہی ہے کہ نہ پاکستان میں رہنا ہے (اکثریت کو) نہ جانا نہ آنا لیکن پاکستانی سیاست کا چسکہ ایسا منہ کو لگا ہوا ہے کہ دلچسپی اسی سیاست میں ہی رکھنی ہے دراصل ہم لوگ امریکی سیاست سے خوفزدہ ہیں جبکہ ہمارے برعکس ہندوستانی، امریکی گورنر کی عہدے پر فائز رہے ان میں سے ایک تو گورنر کا عہدہ چھوڑ کر اقوام متحدہ میں امریکی سفیر کے عہدہ تک بھی پہنچ گئیں ان سکھ خاتون کا نام لنکی ہیلی ہے جو کہ ایک خبر کے مطابق 2024ءمیں ممکنہ ریپبلکن صدارتی امیدوار ہو سکتی ہیں۔ ایک ہماری کمیونٹی کا یہ حال ہے کہ کاﺅنسلر تک بھی چند ہی خوش نصیب ہونگے۔ پاکستانیوں کے متعلق ایک پرانا لطیفہ یاد آرہا ہے کہ دوزخ میں مختلف قومیتوں کے لوگوں کیلئے الگ کنوئیں بنے ہوئے تھے جس پر ایک یا دو محافظ تعینات کئے گئے تھے جب کوئی دوزخمی کنوئیں سے باہر نکلنے کی کوشش کرتے تو محافظ انہیں ایک زور دار ڈنڈا مار کر واپس کنوئیں میں دھکیل دیتا تھا لیکن حیرت انگیز طور پر پاکستانی کنوئیں پر کوئی محافظ نہیں تھا تو جب ایک شخص جسے دوزخ کی سیر کرائی جا رہی تھی اس نے سوال کیا کہ پاکستانی کنوئیں کے کنارے تو کوئی محافظ نہیں اس کی کیا وجہ ہے معلوم پڑا کہ یہاں محافظ کی کوئی ضرورت نہیں اگر کوئی کنوئیں سے باہر نکلنے کی کوشش بھی کرتا ہے تو دوسرا پاکستانی اس کی ٹانگ کھینچ لیتا ہے ہمارے معاشرے میں ٹانگ کھینچنا پرانا مشغلہ ہے۔ مذاق کے علاوہ آپ اگر سی این این یا MSNBC دیکھیں گے تو کئی ہندوستانی، امریکی کانگریس مین انٹرویو دیتے نظر آئیں گے۔ یہ ہندوستانی، امریکی، سیاستدان دونوں سیاسی جماعتوں ڈیمو کریٹ اور ریپبلکن پارٹی میں موجود ہیں۔ کانگریس امریکہ کی پالیسی ساز پلیٹ فارم ہے اور ان ہندوستانی، امریکیوں کا امریکی پالیسی سازی پر اچھا خاص عمل دخل ہے۔ نیویارک اور شکاگو کے حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ پاکستانی، امریکیوں کی ایک اچھی خاصی تعداد نے رہائش اختیار کی ہوئی ہے لیکن بد قسمتی سے نہ ووٹ رجسٹر کیا ہوا ہے نہ ہی کوئی دلچسپی ہے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ان دو بڑے شہروں میں ایسی کوئی تنظیم ہی نہیں جو اس کام کوانجام دے حالانکہ نیویارک اسٹیٹ اور سٹی کے علاوہ امریکی وفاق بھی فنڈ دے سکتی ہے، ایسی تنظیم کاری کی مد میں تاکہ پاکستانی شہریوں جو کہ امریکی شہریت رکھتے ہیں ان میں انتخابات میں شامل ہونے کی ہمت افزائی کیلئے پاکستانی،ا مریکیوں کی اکثریتی علاقوں میں ترقیاتی کاموں کیلئے اپنی زبان میں اسکولوں کیلئے رہنمائی ہسپتالوں خصوصاً زچگی کلینکس اور ہسپتالوں کیلئے یہ سارے کام حکومتی امداد سے کرائے جا سکتے ہیں۔ 2020ءکے انتخابات پھر قریب آگئے ہیں خدا کے واسطے خواب خرگوش سے جاگیں اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا چھوڑیں اور امریکی سیاست میں اپنا اثر و رسوخ پیدا کریں اگر ہندوستان اور کیوبا کے تارکین وطن امریکی سیاست میں اپنا لوہا منوا سکتے ہیں تو آپ بھی اپنی باتیں منوا کر اپنے مسائل حل کروا کے اپنے پرانے ملک کی مدد بھی کر سکتے ہیں، اس کام کی ابتداءمحلے کی سطح سے ہوگی اور اس کا دائرہ آہستہ آہستہ وسیع ہوتا جائےگا۔
آج آئیوا 10WA کاکس کے پہلے انتخاب میں ڈیمو کریٹک پارٹی اپنے پسندیدہ امیدوار کا انتخاب کریگی اسی طرح یہ فیصلہ ہر ریاست کی سطح پر ہوگا۔ تازہ ترین تبصروں اور سروے کے نتائج سے یہ صورتحال سابق نائب صدر جوبائیڈن (جو کہ پچھلے دور میں صدر اوباما) کے نائب رہے ہیں) اور برنی سینڈرز کے درمیان مقابل ہے لیکن آج رات کا فیصلہ حیرت انگیز بھی ہو سکتا ہے آج رات آئیووا کے نتائج کی چھاپ 2020ءکی صدارتی انتخابی معرکہ پر گہری ہوگی۔