پیر مکرم الحق،انڈیانا
mukarampeer@gmail.com
انگریزی کا ایک محاورہ ہے جس کامفہوم ہے کہ ”’اقتدار انسان کو بگاڑتا ہے اور مکمل اقتدار مکمل طور پر انسان کو کسی کام کا نہیں چھوڑتا، اقتدار بھی ایک نشہ ہے جس کو لگ جائے وہ اقتدار کے بغیر ایسے تڑپتا ہے جیسے مچھلی بغیر پانی کے۔ حالانکہ اقتدار نہایت ہی عارضی ہوتا ہے یعنی زندگی سے بھی عارضی لیکن پھر جو اقتدار کے مزے لیتے لیتے جب اقتدار سے الگ ہو جاتے ہیں ان کی زندگی بے معنی سی ہو جاتی ہے۔ جنرل ایوب خان نے بھی چُن کر اسلام آباد کو پاکستان کا مرکز بنانے کا فیصلہ کیا، چاروں طرف مارگلہ کی پہاڑیوں میں گھرے تنہا بے بس وادی جس میں مہنگے مہنگے پودے لگا کر سر سبز بنایا گیا ہے ،سبزہ بھی جان لیوا ثابت ہوا کیونکہ الرجی کی وباءایسی پھیلائی گئی کہ حکومت کو مجبوراً قومی ادارہ برائے صحت بنا کر ان بیماریوں پر ریسرچ کرانے کیلئے ایک خاص ادارہ بنوانا پڑا تحقیق کروانے پر معلوم ہو اکہ بابوﺅں (افسران) نے وہ پودے جو پولن پھیلانے کا سبب بنے تھے وہ مہنگے دام لے کر کمیشن تو کھا لیا لیکن ساتھ میں اپنے اور اپنے بچوں کیلئے بیماریاںپیدا کر لیں۔ دمہ اور سانس کی تکالیف اتنی بڑھ گئیں 70ءکی دہائی میں کافی لوگوں کو اسلام آباد چھوڑنا پڑا، ویسے بھی پوٹھوہار کا خطہ ہی بے وفاہے ،افسران اگر اسلام آباد کو نہیں چھوڑتے تو پھر اسلام آباد ان کو نچوڑ کر چھوڑ جاتا ہے۔ راقم تیس سال تک اس بے وفا شہر کا مکیں رہا ہے کئی حکومتیں آئیں اور کئی گئی ہیں۔ نئے اقتدار میں آنے والے تو آتے ہی اپنے اقتدار کو دائمی سمجھ بیٹھتے ہیں لیکن پھر جب اقتدار ان کے قدموں کے نیچے سے جب کھینچ لیا جاتا ہے تو سر کے بل زمین دوز ہوتے ہی ان کی آنکھیں ایسے کھلتی ہیں جیسے کسی خوبصورت خواب کے دوران انہیں جگایا گیا ہو۔ پہلے پہلے تو کہتے ہیں کہ بھئی اقتدار بھی چلا جائے ہم تو یہاں اسلام آباد میں ہی رہیں گے لیکن اسلام آباد کی بے ثباتی ایسی ظالم ہوتی ہے کہ چوکیدار بھی سلام لینا گوارہ نہیں کرتا، پڑوس تو دور کی بات ہے۔ ہم نے ان گنہگار آنکھوں سے دیکھا ہے کہ جن کے دروازہ کے باہر اتنی بھیڑ ہوئی تھی کہ کبھی کبھی پولیس یا سیکیورٹی کو لاٹھی چارج کرنا پڑاتھا آج اقتدار کے بعد ان کے دروازہ پر کیا ان کی دیوار کےساتھ بھی کئی دنوں تک کوئی نہیں گزرتا تھا، انہیں پھر اسلام آباد کا سہانہ موسم کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے، بارش کی بھینی بھینی خوشبو تنہائی کے احساس میں اس حد تک اضافہ کرتی ہے کہ دل کرتا تھا کہ کسی پُرہجوم شہر میں جا بسیں۔ ہم نے تو پہلے کے چند برسوں میں ہی اندازہ لگا لیا کہ موسمی دوستوں سے پرے رہنے میں ہی عافیت ہے ،یہ سوچ کر انگلیوں پر گننے جیسے چند مخلص دوست بنائے ،مرگلہ کی پگڈنڈیوں کی طرح اکیلے اور خاموش رہنا سیکھا کیونکہ اسلام آباد کی اصل خوبصورتی اقتدار کے ایوانوں سے دور مارگلہ کی پہاڑی چوٹیوں کے عقابوں کی اُڑان اور چیڑ کے لمبے لمبے خوبصورت اور خوشبودار پیڑوں کی مہک ہی اس شہر کا اصل روپ ہیں۔ اقتدار کی جنگ اور اقتدار کے ایوانوں میں پنپنے والی منافقت، منافرت اور مخاصمت کی بدصورتی نے تو اس شہر کی قدرتی خوبصورتی کو برباد کیا ہے، وقت کےساتھ بدلنے والے نقابوں نے اقتدار کی ہوس رکھنے والے لوگوں کے اصلی چہروں کو مسخ کر کے رکھ دیا ہے، نام نہاد عامل فاضل شخصیات اپنے چہروں پر منافقانہ مسکراہٹ لبھائے پھرنے والے یہ لوگ ہر انے والی حکومت کےساتھ اور جانے والی حکومت کیخلاف ہو جاتے ہیں ،ذرا سی دیر میں دوست بدل ڈالتے ہیں،د شمن بن جاتے ہیں، بد قسمتی سے اس مرتبہ اس کا نشانہ ہمارے کپتان بننے جا رہے ہیں۔ لاڈلے کپتان کو اندازہ ہی نہیں کہ ”اختتام“ کونے پر ان کا انتظار کر رہا ہے اب جس حزیمت کا سامنا انہیں کرنا پڑےگا ،ان کو اس کا اندازہ بھی نہیں ،عوام میں اپنی حمایت کا بیشتر حصہ تو انہوں نے کھو دیا ہے باقی جن فوجی عزیز و اقارب یا نیازی پولیس افسران کےساتھ ان کی خوش فہمی رہ گئی ہے اس کی قلعی بھی پہلے جھٹکے میں ہی کُھل جائیگی۔ بنی گالا میں جانا بھی ممکن نہیں ہوگا، امکان اس بات کا ہے کہ بنی گالا محل کو غیر قانونی تعمیرات میں شامل کر کے بلڈوز کیا جائے گا۔ عمران خان کو واپس لندن ہی جانا پڑےگاجہاں سے آغاز ہوا تھا ،وہیں انجام بھی ہوگا۔ اقتدار کا تکبر ویسے بھی فرعونی صفت ہے جو اللہ کے نزدیک انتہائی قابل نفرت عمل ہے، آخر نام اللہ کا جو حاضر بھی ہے اور غائب بھی۔