پیر مکرم الحق
عمران خان کی ٹائیگر فورس کی تشکیل میں غیر معمولی دلچسپی ایک خطرناک رجحان کی طرف اشارہ سے ملی، قانون نافذ کرنے والے اداروں پر عدم اعتماد کی نشاندہی کرتا ہے۔ ماضی میں اس قسم کی فورس کی تشکیل سے خطرناک نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ 70ءکی دہائی میں مسعود محمود نے ذوالفقار علی بھٹو کو ایف ایس ایف بنانے کی تجویز دی تھی جو کہ براہ راست وزیراعظم کو جوابدہ ہونی تھی اور پھر اسی مسعود محمود نے نواب قصوری قتل کیس میں جھوٹی گواہی دے کر اپنے غلط کام کو بھٹو صاحب کے سر پر ڈال کر خود سلطانی گواہ بن گیا۔ آج کے پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس بہترین تکنیکی آلات موجود ہیں۔ اچھی سے اچھی تربیت میسر ہے، ایک اور غیر منطقی تاویل، ٹائیگر فورس کی تشکیل کے حوالے سے دی جا رہی ہے کہ دراصل یہ فورس کورونا وائرس کو کنٹرول کرنے کیلئے بنائی جا رہی ہے دنیا کو کسی ملک نے بشمول چائنہ اور ہندوستان جن ملکوں کی آبادی ہم سے کہیں زیادہ ہے ایسی کسی تجویز پر غور نہیں کیا۔ جی یہاں لوکل باڈیز اور کونسلوں کو اختیار دیا جائے کہ محلہ کمیٹیاں بنا کر وائرس کو پھیلنے سے روکنے کیلئے تجویز کئے گئے اقدامات پر سختی سے عمل کروائے، اس کیلئے وزیراعظم کے ماتحت ٹائیگر فورس کی تشکیل کی تجویز یا ارادہ انتہائی مذاق خیز ار تلمگانہ سا لگتا ہے۔ حکومت کے اندر سرکار کیلئے پہلے سے ہی زمہ دار محکمہ اور کارندے موجود ہیں۔ بجائے اس کے کہ ان محکموں کی اور افراد کی اصلاح کریں آپ ایک عارضی صورتحال سے نپٹنے کیلئے ایک فورس تشکیل کر رہے ہیں۔ جو کہ ابتداءمیں تو عارضی ہی ہوگی لیکن اس کی مدت کے خاتمہ کے قریب اس میں توسیع ہوتی رہے گی اور بعد میں وہ فورس مستقل ہو کر تحریک انصاف کا سیاسی بازو بن جائینگے، مختلف سیاسی جماعتیں اور کارکنان کی ٹائیگر فورس کےساتھ مڈ بھیڑ ہوگی پھر اسی ٹائیگر فورس کو اسلحہ رکھنے کی اجازت بھی جاری کر دی جائیگی تاکہ وہ اپنا دفاع کریں لیکن اس قسم کے اقدامات ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل سکتے ہیں جہاں تک تعلق ہے کہ کرونا وائرس کی روک تھام تو ہر صوبہ کو کہا جائے کہ وہ اپنے محکمہ صحت کو ہدایات دیں کہ مڈ وائیوز اور کمیوٹائنڈروں پر مشتمل ا یک تربیت یافتہ فورس تیار کریں جو لوگوں کو محلے محلے جا کر اس مرض سے بچنے کی تدبیروں پر عمل کرنے کے طریقہ کار کی وضاحت کریں۔
خواتین کیلئے خواتین کا استعمال کیا جائے اور مردوں کیلئے مرد کارکنوں کو آگے لایا جائے۔ کرونا سے بچنے کی تدابیر کی تربیت محلہ کی سطح پر زیادہ مو¿ثر طور پر کی جا سکتی ہے اس کیلئے کسی وفاقی فورس کی ضرورت نہیں پہلے ہی چھوٹے صوبہ وفاقی حکومت کے 18 ویں ترمیم مخالف روئیے سے شاکی ہیں ایک اور فورس جس میں اکثریت تحریک انصاف کے حامیوں کی ہی ہونی ہے۔ سیاسی مخاصمت کو جنم دے گی۔ سال ڈیڑھ کے بعد انتخابات کا موسم شروع ہونا ہے اور اگر یہ ٹائیگر فورس کسی نہ کسی صورت میں مستقل شکل اختیار کر گئی تو یہ حکومت دھاندلی کے الزامات میں ڈُوب جائیگی اور پھر PNA کے انداز کی تحریک کا جواز پیدا ہو جائےگا اور پھر ایک نیا جنرل ضیاءریڈیو اور ٹی وی پر آکر وہی پرانی تقریر کرےگا جس کا آغاز پھر انہی منحوس الفاظ سے کرےگا، کہ میرے عزیز ہم وطنو!ٹائیگر فورس کی تجویز کس نے دی ہے لیکن اتنا ضرور کہوں گاکہ وہ شخص یا ٹولہ عمران خان کےساتھ مخلص نہیں ہے،قارئین آپ بھی گواہ رہئیے گا وقت اس بات کی صداقت کی گواہی دے گا۔
سندھ حکومت کی کارکردگی رکونا وائرس کے سلسلے میں نسبتاً بہتر رہی ہے لیکن بروز اتوار مئی 3 کو ساٹھ سالہ ریڈیالوجسٹ ڈاکٹر فرقان کی موت کے افسوسناک واقعہ نے سندھ حکومت کے بڑے دعوﺅں کی قلعی کھول دی، ڈاکٹر فرقان کو دو ہفتے سے کرونا کا مرض لاحق تھا اور وہ گھر میں قرنطینہ کئے ہوئے تھے اچانک ان کی طبیعت بگڑی، بیگم صاحبہ نے انڈس ہسپتال کو فون کر کے ایمبولینس بلوانے کی کوشش کی تو انہیں بتایا گیا کہ ہسپتال میں کسی مریض کی کوئی گنجائش نہیں ہے اس لئے ڈاکٹر فرقان کا گھر پر ہی علاج کروائیں پھر انہوں نے ڈاکٹر صاحب کے ہم پیشہ دوستوں سے درخواست کی کہ وینٹی لیٹر دلوایا جائے لیکن اس میں بھی ناکامی ہوئی، اس طرح ڈاکٹر صاحب بغیر علاج معالجہ کے اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ تصور کریں جس مسیحا نے تمام عمر لوگوں کی بیماری میں ان کی خدمت کیو ہ خود بغیر علاج کے تڑپ تڑپ کر موت کی آغوش میں چلا گیا۔ حکومت سندھ کو فوراً ہائیکورٹ کے جج سے تحقیقات کروانی چاہیے اور ہسپتالوں میں ایمرجنسی کے نظام کو بہتر اور ذمہ دار بنانے کی بھی اشد ضرورت ہے صرف اپنی تعریفوں سے اجتناب کر کے خود احتسابی کی ضرورت کو مقدم رکھیں اسلاح کے تالے کو خود احتسابی کی کنجی ہی کھول سکتی ہے۔
٭٭٭